03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدرسے میں آنے والے مہمانوں کے اکرام کا حکم
86029زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

مدرسہ سے کسی مہمان کو کھلانے کی کس حد تک اجازت ہے،چاہے وہ مہمان کسی استاد کے کام سے آیا ہو،یا مدرسہ کی نسبت سے؟ ان دونوں صورتوں کا حکم مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وہ مہمان جو مدرسہ میں موجود کسی فرد سے اس کے ذاتی تعلق کی بناء پر ملنے آیا ہو اسے مدرسہ کے فنڈ سے بنا ہوا کھانا کھلانا درست نہیں،اگر کھلایا جائے تو بعد میں اس کی مناسب قیمت متعلقہ مد میں جمع کرادی جائے،البتہ مدرسہ کی نسبت سے آنے والے مہمانوں کا مدرسے کے فنڈ سے ان کی حیثیت کے مطابق اکرام کرنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات

"رد المحتار"(2/ 269):

"الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره".

"الفتاوى الهندية "(2/ 416):

"لو أنفق دراهم الوقف في حاجته ثم أنفق مثلها في مرمة الوقف يبرأ عن الضمان".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

20/جمادی الثانیہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب