85864 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ہمارے ایک چچانے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سعودیہ میں کام کرتے تھے، سال بعد آتے تھے، بیوی کے ساتھ اچھا تعلق تھا، ان کی ایک بچی بھی تھی، ایک دفعہ وہ گھر آنے کے بعد جب واپس سعودیہ گئے تو گیارہ ماہ بعد ان کی بیوی (حمیدہ) کے ہاں لڑکے کی ولادت ہوئی، گھر کی کچھ خواتین نے کہا کہ چچا کے جانے کے بعد اس کی بیوی کو ماہواری آئی تھی، اس وجہ سے چچا شک میں پڑگئے اور کہا یہ میرا بیٹا نہیں ہے، اس کے بعد انہوں نے اپنی بیوی سے لعان وغیرہ کچھ نہیں کیا، بس وہیں سے طلاق دیدی اور طلاق نامہ بنوانے کا کہا، چنانچہ ہمارے دادا اور محلے کے چند افراد نے ان کے کہنے پر طلاق نامہ بنوایا۔ ہمارے رشتہ داروں میں سے کوئی بھی اس خاتون کے بارے میں برابھلا نہیں کہتا، بلکہ سب "واللہ اعلم" کہتے ہیں۔
چچا نے اس کے بعد دوسری شادی کی، لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی اور فوت ہوگئے، چچا کی وفات کے بعد ہم نے ان کی بیوہ کو قانون کے ذریعے آٹھواں حصہ ایک لاکھ پچاس ہزار (150,000) روپے دئیے۔ پہلی بیوی سے چچا کی بیٹی ہمارے پاس بڑی ہوئی اور اس کی شادی ہوگئی، وہ لڑکا بھی بڑا ہوگیا۔ اب وہ دونوں عدالت کے زریعے اپنے والد کی میراث لینے کے لیے آئے، ہم نے عدالت میں طلاق نامہ پیش کیا جس میں چچا نے لکھا تھا کہ میں اپنا بیٹافی سبیل اللہ حمیدہ (مطلقہ بیوی) کو دیتا ہوں، وہ تاحیات اس کے پاس رہے، یہ طلاق نامہ دادا اور محلے کے چند افراد نے چچا کے کہنے پر بنوایا تھا۔ عدالت نے اس بنیاد پر اور نکاح کے بعد دو سال کے اندر پیدا ہونے کی وجہ سے اس کو وارث قرار دیا۔
ہمارے دادا سے ہمیں جو زمین ملی، اس میں تین گھر بنے ہوئے ہیں، پہاڑ میں نیچے ہمارا گھر ہے، سب سے اوپر تایا کا گھر ہے اور بیچ میں اِس چچا کا گھر تھا۔ ہم نے چچا کا یہ گھر خود لیا اور عدالت کے ذریعے اپنے نام کروالیا، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چچا کی وفات کے بعد ان کی اس وقت موجود بیوی کو میراث کا حصہ ہم نے اپنی طرف سے دیا تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ گھر ہمارے دادا کا تھا، انہوں نے میرے والد صاحب اور اس چچا سے کہا یہ آپ دونوں آدھا آدھا کرلیں، میرے والد صاحب نے کہا میں نہیں لیتا، جبکہ میرے چچا نے وہ دادا سے لے لیا اور توڑ کر نیا بنا لیا، ہمارے والد صاحب نے اپنے لیے نیچے نیا مکان بنا دیا، اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ دادا نے تو ہمارے والد صاحب سے بھی کہا تھا کہ آپ اس میں سے آدھا لے لیں، اس لیے یہ گھر ہم لیں گے۔ چچا کی بیٹی اور اس لڑکے کو ہم نے یہ گھر نہیں دیا، بلکہ ایک طرف دو کنال زمین دیدی، لیکن وہ دونوں اس پر راضی نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں ہمیں یہ گھر دیں اور اس کے ساتھ زمین میں ہمارا جو حصہ بنتا ہے وہ بھی دیں۔
اس صورتِ حال میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ کیا وہ دونوں اس گھر کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ ہمیں شریعت کی روشنی میں جواب دیدیں، تاکہ ہماری آپس میں جو محبت اور جو تعلق تھا، وہ دوبارہ قائم ہوسکے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کے چچا کے جانے کے بعد اس کی بیوی کو خون آنے اور پھر بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے اس پر شک کرنا جائز نہیں تھا، حمل ٹھہرنے کے بعد ماہواری کا خون نہیں آتا، جس کو شریعت میں "حیض" کہتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ خون آسکتا ہے، جس کو "استحاضہ" کہتے ہیں۔ پھر آپ کے چچا کا صرف شک کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا اور اس پر تہمت لگانا بھی جائز نہیں تھا، بہر حال جب اس نے باقاعدہ لعان کر کے مذکورہ بچے کے نسب کی نفی نہیں کی تو بچے کا نسب اس سے ثابت ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مرحوم چچا کا یہ گھر آپ کے لیے لینا جائز نہیں، یہ گھر اس کے ورثا کا ہے، جن میں اس کی دوسری بیوی (جو وفات کے وقت اس کے نکاح میں تھی) اور پہلی بیوی سے ہونے والی بیٹی اور بیٹا شامل ہیں، بیوہ کا آٹھواں حصہ بنتا ہے، جبکہ باقی اس کے بیٹے اور بیٹی کا ہے، جس میں بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ البتہ سوال نامہ کے مطابق آپ کے والد صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو اس کے حصے کی قیمت دیدی تھی، اگر یہ بات ٹھیک ہے تو پھر گھر میں بیوہ کا آٹھواں حصہ آپ کے والد صاحب کا ہوگیا تھا، لیکن باقی سات حصے چچا کے بیٹے اور بیٹی ہی کے ہیں۔ آپ نے یہ گھر عدالت کے ذریعے اپنے نام کروانے اور لینے کی جو دو وجوہات لکھی ہیں، اس میں سے پہلی وجہ (چچا کی بیوہ کو اس کا حصہ دینے) کی وضاحت تو آگئی کہ آپ کے والد صاحب نے چچا کی بیوہ کو حصہ دیا ہے تو وہ صرف اسی کے حصے کے مالک بنے ہیں، اپنے بھتیجے اور بھتیجی کے حصے کے مالک نہیں بنے۔ جہاں تک دوسری وجہ کا تعلق ہے تو جب آپ کے والد صاحب نے اپنے والد کے کہنے پر اس مکان میں حصہ لینے سے انکار کیا اور آپ کے چچا نے وہ پورا مکان اپنے والد سے لیا اور اس پر اپنے لیے نئی تعمیر بنوائی تو یہ پورا مکان ان کا ہوگیا تھا، اب ان کے انتقال کے بعد یہ صرف ان کے ورثا کا ہے، آپ کے والد صاحب یا آپ کا اس میں کوئی حق نہیں۔
گھر کے علاوہ جو زمین ہے، اس میں بھی چچا کا حصہ اس کے ورثا کا ہے۔ لہٰذا آپ کے والد صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو جو ڈیڑھ لاکھ روپے دئیے تھے، اگر وہ صرف اس گھر میں ان کے حصے کی قیمت تھی تو اب زمین میں چچا کا حصہ اس کی بیوہ، بیٹے اور بیٹی سب میں تقسیم ہوگا، اور اگر یہ ڈیڑھ لاکھ روپے گھر اور زمین دونوں میں بیوہ کے حصے کی قیمت تھی تو پھر زمین میں بھی بیوہ کا آٹھواں حصہ آپ کے والد صاحب کا ہوگیا تھا، لیکن باقی سات حصے آپ کے چچا کے بیٹے اور بیٹی کے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ آپ کے چچا کے بیٹے اور بیٹی کا مذکورہ مکان اور زمین دونوں میں اپنے حصے کا مطالبہ کرنا درست ہے، آپ سب پر لازم ہے کہ ان کو ان کا حصہ بغیر کسی کمی بیشی کے پورا پورا دیدیں، ورنہ آپ سب گناہ گار ہوں گے۔
حوالہ جات
الدر المختار (3/ 489-485)
( فإن لاعن لاعنت ) بعده؛ لأنه المدعي، فلو بدأ بلعانها أعادت، فلو فرق قبل الإعادة صح لحصول المقصود، اختيار ( وإلا حبست ) حتى تلاعن أو تصدقه ( فيندفع به اللعان ولا تحد ) وإن صدقته أربعا؛ لأنه ليس بإقرار قصدا، ولا ينتفي النسب؛ لأنه حق الولد فلا يصدقان في إبطاله……………. وأما شروط النفي فستة مبسوطة مذكورة في البدائع.
حاشية ابن عابدين (3/ 489-486)
قوله ( ولا ينتفي النسب ) لأنه إنما ينتفي باللعان، ولم يوجد، وبه ظهر أن ما في شرحي الوقاية و النقاية من أنها إذا صدقته ينتفي غير صحيح، كما نبه عليه في شرح الدرر و الغرر، بحر. وسيأتي أن شروط النفي ستة، منها تفريق القاضي بينهما بعد اللعان……………. قوله ( فستة ) الأول التفريق، الثاني أن يكون عند الولادة أو بعدها بيوم أو يومين، الثالث أن لا يتقدم منه إقرار به، ولو دلالة، كسكوته عند التهنئة مع عدم رده، الرابع حياة الولد وقت التفريق، الخامس أن لا تلد بعد التفريق ولدا آخر من بطن واحد، السادس أن لا يكون محكوما بثبوته شرعا، كأن ولدت ولدا، فانقلب على رضيع، فمات الرضيع وقضى بديته على عاقلة الأب، ثم نفى الأب نسبه، يلاعن القاضي بينهما ولا يقطع نسب الولد؛ لأن القضاء بالدية علی عاقلة الأب قضاء بكون الولد منه، ولا ينقطع النسب بعده، وتمامه في البحر.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
11/جمادی الآخرة/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |