85865 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ہمارے دادا کی میراث میں ہماری پھوپھیوں کا جو حصہ بنتا تھا، وہ ہمارے والد اور تایا جان نے الگ کرلیا تھا، لیکن ان کو دیا نہیں، بلکہ آپس میں ہی تقسیم کرلیا۔ ہمارے ایک چچا کا انتقال ہوچکا تھا، اس کے بیٹے اور بیٹی کو اس میں سے حصہ نہیں دیا۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ ہماری وہ پھوپھیاں زندہ ہیں، جبکہ والد صاحب اور تایا جان کا انتقال ہوچکا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بھائیوں کا بہنوں کو میراث میں بالکل حصہ نہ دینا یا اس میں کمی بیشی کرنا سخت ناجائز اور حرام ہے۔کسی بھی وارث کو میراث سے بالکل محروم کرنا یا اس کا حصہ پورا پورا نہ دینا ظلم اور غصب ہے، جس پر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:-
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْما إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا. [النساء: 10]
ترجمہ:یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں ،وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں ، اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔(آسان ترجمہ قرآن:187)
حدیث شریف میں آیاہے: "من قطع میراثاً فرضه الله ورسوله قطع الله میراثه من الجنة."(شعب الإیمان للبیهقی: 224/6 )
ترجمہ:جس نے الله اور اس کے رسول(ﷺ) کی مقرر کردہ میراث کو ختم کیا،(یعنی کسی وارث کو اس کے حق سے محروم کیا )تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی میراث سے محروم کر دیں گے ۔
اس لیے آپ کے والد اور تایا کا اپنی بہنوں کا حصہ بھی آپس میں تقسیم کرنا جائز نہیں، بلکہ حرام تھا، جس کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوئے ہیں۔ اب آپ کے والد اور تایا دونوں کے ورثا پر لازم ہے کہ پھوپھیوں کو ان کا حصہ پورا پورا دیں۔ آپ کے والد اور تایا نے جب بہنوں کے حصے میں سے اپنے مرحوم بھائی کے بیٹے اور بیٹی کو کچھ نہیں دیا تھا تو ان دونوں پر کچھ لازم نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
۔
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
11/جمادی الآخرة/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |