03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مطلقہ حاملہ سےوضع حمل کےبعدنکاح کاحکم
85816طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

میں نے اپنی زوجہ کو زچگی(پریگنینسی) کی حالت میں واضح لفظوں میں ٹھہر ٹھہر کر بیوی کی طلب پر اور ایک عورت بطور گواہ کی موجودگی میں ایک طلاق دی۔ سمجھانے کی غرض سے بیوی کےساتھ بات کرتا رہا کہ مفاہمت ہو جائے ،لیکن کبھی زبان سے یا دل سےمیں نے رجوع نہیں کیا۔اور وہ دوسرے اور تیسرے کی بھی طلب کرتی رہی۔

سوال :اب بچہ پیدا ہونے پر کیا عدت ختم ہو گئی ہے ؟ اگر ہاں تو پھر کیا ہمارا نکاح باقی رہا ؟ اور کیا وہ دوسری جگہ شادی کے لیے آزاد ہے؟ کیا وہ مجھ سے کسی قسم کے نان و نفقہ کی حق دار ہے ؟ کیا ہم دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں ؟ یا بغیر نکاح کے اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ کیا باقی دو طلاق خود بخود واقع ہو جاتی ہیں پہلی دینے کے بعد ؟ اور اگر اب رجوع کیے بغیر عدت مکمل ہو نے کے بعد اگر مجھ سے باقی دو طلاقیں لکھوائی یا لے لی جائیں تو کیا وہ باقی دو اب مؤثر ہو جائیں گی؟ برائے کرم رہنما ئی فرمائیں اس معاملہ میں ،کیونکہ میں مزید طلاق نہیں دینا چاہتا ۔ اور اگر دوسری جگہ نکاح کرتا بھی ہوں تو مستقبل کے لیے اپنی بچوں کی خاطر میں اسے دوسری بیوی بنانے کا راستہ کھلا رکھنا چاہتا ہوں  ۔ شکریہ !

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مذکورہ میں بچے کی پیدائش سےعدت ختم ہوگئی ہے اور نکاح بھی ختم ہوگیاہے۔عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔لہذا آپ دونوں کےلیےبغیر نکاح کےاکٹھےرہناجائز نہیں اورجب تک دوبارہ نکاح نہیں ہوگاتوباقی دو طلاقیں دینےسےبھی واقع نہیں ہوں گے۔

آپ نےچونکہ ایک ہی طلاق دی تھی اس لیےباہمی رضامندی سےدوبارہ نکاح کر کےآپ دونوں اکٹھےرہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ آئندہ   آپ کے پاس صرف دوطلاقوں کا اختیارباقی رہےگا۔

حوالہ جات

قال العلامۃ أبوبکر الزبیدی رھمہ اللہ :قوله 🙁وإن كانت حاملا فعدتها أن تضع حملها) سواء كان ذلك من طلاق أو وفاة.(الجوهرة النيرة : 2/ 74)

وقال رحمہ اللہ أیضا:قوله :وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في عدتها وبعد انقضاء عدتها) ؛ لأن حل المحلية باق؛ لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله وله منع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في إطلاقه له.( الجوهرة النيرة:2/ 53)

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ :قوله:( وللحامل وضعه) أي: و‌‌عدة الحامل وضع الحمل لقوله تعالى {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن} [الطلاق: 4] أطلقها فشمل الحرة والأمة المسلمة والكتابية مطلقة أو متاركة في النكاح الفاسد أو وطء بشبهة والمتوفى عنها زوجها لإطلاق الآية .

 (البحر الرائق :4/ 145)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:والرجعي لا يزيل الملك إلا بعد مضي العدة.(رد المحتار :3/ 400)

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ:قوله:( وينكح مبانته في العدة، وبعدها) أي المبانةبما دون الثلاث لأن المحلية باقية لأن زوالها معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلها.(البحرالرائق: 4/ 61)

قال العلامۃ ابن المودود الموصلی رحمہ اللہ: وله أن يتزوج مطلقته المبانة بدون الثلاث في العدة وبعدها، والمبانة بالثلاث لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا. (الاختيارلتعليل المختار :3 / 150)

محمدادریس

 دار الافتاءجامعۃ الرشید ،کراچی      

/7جمادی الثانیۃ1446ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن غلام محمد

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب