03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دیہات میں جمعہ کی نمازکی ادائیگی
85907جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں لنڈی بلوچ میں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر نماز جمعہ جائز ہے یا نہیں ہمارا گاؤں 260 گھروں پر مشتمل ہے جسمیں موجودہ آبادی تقریباً 2800 سے متجاوز ہے۔ اس میں 15 عدد پر چون سامان کے دکانیں ہیں جہاں سے روزمرہ ضروریات مثلاً آٹا گھی، چاول ،چینی، دال، صابن ، سبزی ،فروٹ،مٹھائی، مرغی کا گوشت ،چپل وغیرہ مہیا ہوتے ہیں ۔اور خواتین بھی اپنے گھروں میں زنانہ کپڑوں، وغیرہ کی تجارت کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ دو عدد پنکچر کی دکانیں ہیں ۔اور ایک آٹا چکی کی دکان ہے۔ پانچ عدد میڈیکل سٹور ہیں جہاں سے تقریباً ادویات میسر ہوتے ہیں ۔پانچ ڈاکٹر ہیں ۔اپنے گاؤں کے علاؤہ دیگر علاقوں سے بھی لوگ علاج کروانے کے لیے آتے ہیں ۔14 عدد مساجد ہیں۔ تین عدد اسلامی مدارس جسمیں سینکڑوں طلباء کرام سبق پڑھتے ہیں ۔اس کے علاؤہ تین عدد سکولز ہیں ۔ایک گورنمنٹ ہائی سکول ہے اور ایک پرائمری گرلز سکول ہے اور ایک پرائیوٹ( پبلک) سکول ہے ۔ ہمارے گاؤں کے علاؤہ دیگر قرب وجوار کے طلباء بھی یہاں سکول پڑھنے آتے ہیں ۔ دو ہسپتالیں ہیں۔ ان میں سے ایک حیوانات کا ہے دونوں مستقل طور پر آباد نہیں۔ نیز ہمارے گاؤں میں کافی معمار ہیں اور دو لائن مین بھی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور شخصی گاڑی کافی مقدار میں موجود ہیں ہمارے علاقے کے بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر یہ قریہ کبیرہ ہے جس میں نماز جمعہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ لیکن بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر یہ قریہ کبیرہ نہیں جس کی وجہ سے یہاں جمعہ ادا کرنا جائز نہیں ۔ (1) ہمارے گاؤں کے آبادی تین چار ہزار سے کم ہے ۔(2) ہمارے گاؤں میں حکومت کی کوئی تھانہ وغیرہ نہیں۔ (3) ہمارے گاؤں میں زرگر نہیں۔(4)حجام اور ترکان باقاعدہ دوکاندار کے شکل میں نہیں۔ (5) ڈھول بجانے والا نہیں ہے ۔(6) برتن کی دکان نہیں ہے وغیرہ (7) ہمارے گاؤں کے دکانیں ایک بازار کے شکل میں نہیں ۔ مذکورہ بالا حقائق دیکھنے کے بعد یہ بتائیں کہ ہمارے گاؤں میں نماز جمعہ جائز یا نہیں المستفتی ضیاء الرحمن

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ حنفیہ کے نزدیک گاؤں میں جمعہ کی نماز  درست نہیں۔مگر گاؤں سے ایسی بستی اور علاقہ  مراد ہے جو قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کی طرح نہ ہو اور جو قریہ کبیرہ  (بڑا گاؤں) کی طرح ہو  یعنی وہ اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی چار ہزار افراد  پر مشتمل ہو لیکن چار ہزار افراد کاہونا   لازمی نہیں ہے   بلکہ اس کا مدار عرف پر ہے، جس  علاقے کو عرف میں بڑا گاؤں سمجھا جانےلگےوہ شہر ہی کے حکم میں سمجھا جائے گا۔وہاں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں ، ہسپتال ہو،خطیب ومنبر ہو ایسی بستی اور علاقہ کو شہر قصبہ یا بڑا گاؤں کہا جائے گا ۔

لہذا موضع لنڈی بلوچ  کی جو حالت سوال میں لکھی گئی ہے اس  کے مطابق اس میں موجودہ آبادی تقریباً 2800 سے  متجاوز ہے اورخطیب ومنبر   بھی ہےوغیرہ وغیرہ ۔ اس جگہ کی ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہاں ضرورت کی تقریبا ساری چیز یں مل جاتی ہیں۔  اس حالت کے اعتبار سے وہ شہر  یاقصبہ یا بڑے گاؤں کے حکم میں  ہے جس کو فقہاء کرام نے قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں )سے تعبیر کر کے جمعہ کو صحیح  کہا ہے اور فقہاء کرام نے قریہ کبیرہ کے حوالے سے جو  تعریفات نقل کی ہیں وہ درحقیقت  تعریفات نہیں علامات ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے موضع مذکورہ  لنڈی بلوچ میں جمعہ  کی نماز درست ہے۔

کچھ حضرات نے کسی مقام کے قریہ کبیرہ کا مصداق بننے کے لیے بازار میں دو رویہ دکانوں کی  شرط لگائی ہے،  لیکن اکابر رحمہم اللہ تعالی کے فتاوی کی طرف مراجعت کرنے سےیہ معلوم ہوتا ہے کہ قریہ کبیرہ میں  دو رویہ دکانوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایسا بازار ہونا کافی ہے، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء بآسانی مل جاتی ہوں اورمقامی لوگوں کی اکثر اشیاء ضرورت وہاں مل جاتی ہوں تو وہ بھی قریہ کبیرہ ہے،اور وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے۔    

بعض حضرات کے نزدیک امام المسلمین کی عدم موجودگی میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں، یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جمعہ کی اقامت کے لیےامام المسلمین یا اس کے نائب یا اس کی طرف سے جمعہ قائم کرنے کے لیے مامور شخص کی شرط کی اصل وجہ امامت کبری کی تعظیم کی برقراری اور مسلمانوں کو امامت جمعہ کے مسئلہ پر نزاع و اختلاف سے بچانا ہے،موجودہ زمانہ میں امت مسلمہ ایک عرصے سےاسلا می خلافت کی نعمت سےمحروم ہے،ان حالات میں جمعہ کے لیے سلطان وغیرہ کی شرط عائد کرنا عملا جمعہ سے مسلمانوں کو محروم کردینے کے مترادف ہوگا۔اس لیے اب ہمارے علم کی حد تک تمام اہل افتاء اس شرط کے حوالے سے مسلمانوں کےمنتخب کردہ امام کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور امام ِوقت یعنی حکمران کی شرط نہیں لگاتے ہیں۔

متقدمین کے ہاں بھی اس کی نظیر ملتی ہے کہ بعض خصوصی حالات میں فقہاء نے امام یا اس کے نائب کی شرط کو ضروری نہیں سمجھا، جیسے اگر والی شہر فوت ہوجائے اور امام سے اجازت کا حصول دشوار ہو اس درمیان جمعہ آجائے، تو لوگ بطور خود نماز جمعہ ادا کرلیں گے ،بلکہ عالمگیری میں ظہیریہ سے نقل کیا گیا ہےکہ امام کی طرف سے اگر جمعہ سے روکا جائےاور لوگ ایک شخص پر متفق ہو کر نماز جمعہ ادا کرلیں ،تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

حوالہ جات

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية: 1 - القرية في اللغة:كل مكان اتصلت به الأبنية واتخذ قرارا.

وتطلق القرية على المدن وغيرها، والقريتان المذكورتان في قوله تعالى {وقالوا لولا نزل هذا القرآن على رجل من القريتين عظيم}  هما مكة المكرمة شرفها الله والطائف، كما تطلق على المساكن والأبنية والضياع  .

واصطلاحا: عرفها القليوبي من الشافعية بأنها العمارة المجتمعة التي ليس فيها حاكم شرعي ولا شرطي ولا أسواق للمعاملة  .

وعرفها الكاساني من الحنفية بأنها البلدة العظيمة إلا أنها دون المصر .

2 - المصر في اللغة: اسم لكل بلد محصور أي محدود تقام فيها الدور والأسواق والمدارس وغيرها من المرافق العامة، ويقسم فيها الفيء والصدقات.

واختلفوا في معناها الاصطلاحي، فعن أبي حنيفة رحمه الله: أن المصر بلدة كبيرة فيها سكک وأسواق، ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون في الحوادث إليه.

قال الكرخي: إن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام.

وقال القليوبي:المصرالعمارة المجتمعة الذي فيه حاكم شرعي وشرطي وأسواق للمعاملات.

والمصر أعظم من القرية  . (الموسوعة الفقهية الكويتية:33/ 160)

قال العلامة الكاساني رحمه الّله  تعالى :وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها .....

أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.

وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح. )بدائع الصنائع (1/ 259:

قال العلامة ابن عابدين  رحمه الّله  تعالى: وبلاد الإسلام التي في أيدي الكفرة لا شك أنها بلاد الإسلام لا بلاد الحرب؛ لأنهم لم يظهروا فيها حكم الكفر، والقضاة مسلمون والملوك الذين يطيعونهم عن ضرورة مسلمون ولو كانت عن غير ضرورة منهم ففساق وكل مصر فيه وال من جهتهم تجوز فيه إقامة الجمع والأعياد وأخذ الخراج وتقليد القضاة، وتزويج الأيامى لاستيلاء المسلم عليه وأما إطاعة الكفر فذاك مخادعة، وأما بلاد عليها ولاة كفار فيجوز للمسلمين إقامة الجمع والأعياد ويصير القاضي قاضيا بتراضي المسلمين، فيجب عليهم أن يلتمسوا واليا مسلما منهم،ثم إن الظاهر أن البلاد التي ليست تحت حكم سلطان بل لهم أمير منهم مستقل بالحكم عليهم بالتغلب أو باتفاقهم عليه يكون ذلك الأمير في حكم السلطان فيصح منه تولية القاضي عليهم.(رد المحتار:5/ 368)

وقال أيضا:وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق.

 (رد المحتار: 2/ 138 (

قال العلامة المرغيناني (لمن أمره السلطان " ‌لأنها ‌تقام ‌بجمع ‌عظيم وقد تقع المنازعة في التقدم والتقديم وقد تقع في غيره فلا بد منه تتميما لأمره) (الهداية :1/ 82)

قال العلامة أنور شاه الكشميري رحمه الّله  تعالى: واعلم أن القرية والمصر من الأشياء العرفية التي لا تكاد تنضبط بحال وإن نص، ولذا ترك الفقهاء تعريف المصر على العرف.

(فيض الباري:2/ 423)

قال العلامة  رشيد أحمد الكنكوهي رحمه الّله  تعالى : وقيل ما فيه أربعة  آلاف رجال إلى غير ذلك، وليس هذا كله تحديدا له بل إشارة إلى تعيينه وتقريب له إلى الأذهان وحاصله إدارة الأمر على رأي أهل كل زمان في عدهم المعمورة مصرا فما هو مصر في عرفهم جازت الجمعة فيه وما ليس بمصر لم يجز فيه إلا أن يكون فناء المصر. (الكوكب الدري 1/ 414)

محمد بلال طاہر

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

13/جمادی الآخرۃ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد بلال بن محمد طاہر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب