03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں متعین نفع لینے کا حکم
85966مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

زید نے شاہد کو بطور مضاربت  ایک لاکھ روپے دیے اور عقد میں شاہد نے زید کو یہ بھی کہا ہے کہ اگر مال ہلاک ہو جائے تو میں ضامن ہوں گا ،زید نے فیصد  متعین نہیں کیا  اور کہاکہ میں آپ کو مہینے میں چار ہزار روپے نفع دوں گا ۔عقد میں ایک ماہ کی مدت طے کی ہے کہ میں آپ کو آپ کے ایک لاکھ روپے اور چار ہزار روپے منافع کے ساتھ واپس دوں گا ۔ایک ماہ پورا ہوا اور شاہدنے زید کو پیسے منافع کے ساتھ واپس کر دیے۔ پہلے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ بیع جائز نہیں ہے، ابھی اس کا پتہ چلا کہ یہ جائز نہیں ہے،تو اب اس کی جائز ہونے کی کیا صورت بنے گی ۔

دوسرا سوال :اگر مضارب خود کہے کہ میں آپ کے مال کا ضامن ہوں گا اگر یہ ہلاک ہو گیا تو یہ ضمانت ٹھیک ہوگی یا نہیں؟ اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔جزاکم اللہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ مضاربت کا معاملہ فاسد ہے، لہذا اس صورت میں مضارب (شاہد ) کو اجرت مثل (یعنی کام کرنے کی  صورت میں جو مزدوری مل سکتی تھی) ملے گی باقی سارا  نفع  رب المال(زید) کو دیا جائےگا۔

اگر مضارب مال مضاربت ہلاک ہونے کا ضمان اپنے ذمہ  لےکہ اگر مال ہلاک ہوجائے تو اس کا ضامن میں ہوں گا ، اس صورت میں یہ شرط باطل ہو گی اورمضارب (شاہد)  ضامن نہ ہوگا، بلکہ شاہد اپنی نفع کی حد تک  نقصان میں  شریک ہوگا، اس کے علاوہ نقصان سرمایہ لگانے والے(زید) کا ہوگا  بشرطیکہ مضارب (شاہد ) کی اس میں غفلت یا تعدی ثابت  نہ ہوجائے۔

حوالہ جات

قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.

ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة.(الدرالمختار :5/648)

قال العلامة الحصكفي رحمه الله: (وإجارة فاسدة إن فسدت فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله مطلقا) ربح أو لا. (الدرالمختار:5/646)

قال العلامةالزیلعی رحمه الله: المضاربة عقد شركة بمال من أحد الشريكين وعمل من الآخر، هذا في الشرع ،والمراد بالشركة الشركة في الربح حتى لو شرطا فيها الربح لأحدهما لا تكون مضاربة على ما نبين. (تبیین الحقائق :5/52)

محمد یونس بن امین اللہ 

دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی

15جمادى الأخری‏، 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد یونس بن امين اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب