03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ اور چاربیٹوں کے مابین میراث کی تقسیم
85968میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! چند ماہ قبل والد صاحب مرحوم و مغفور کا انتقال ہو گیا ۔ہم چار بھائی ہیں اور بہن کوئی نہیں ۔ والدہ پچھلے چھ سات سالوں سے بستر پر ہیں ہر وقت خاموش رہتی ہیں ، دنیا سے تقریبا کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور ذہنی طور پر بھی کچھ مضطرب رہتی ہیں ۔ والد صاحب کی میراث میں تین دکانیں ہیں ،جن میں سے ایک بڑے بھائی ، ایک چھوٹے بھائی کے پاس ہے اورتیسری دکان پر والد صاحب خود کاروبار کیا کرتے تھے۔ ایک فلیٹ ہے جس میں دونوں بڑے بھائی اور والدہ رہتی ہیں اور تقریبا 12 لاکھ روپے نقد رقم ہے ۔ شریعت کی روشنی میں جائیداد کی تقسیم کی وضاحت فرما دیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم  نے  انتقال کےوقت  اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد، سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا سازو سامان  چھوڑا ہو،یہ سب ان کا تر کہ ہے۔اس میں سے مرحوم  کے ذمہ جو قرضہ ہو اس کو ادا کرنے اور ایک تہائی میں  ان کی جائز وصیت  پوری کر نے کے بعد جو ترکہ باقی بچ جائے تو اس  کو درج ذیل طریقے سے تقسیم کیاجائے گا  :کل ترکہ کے  32حصے  کر  لیے جائیں،جس میں سے   مرحوم کی بیوہ کو  4حصے ملیں گے چاہے وہ جس حالت میں بھی ہو ،باقی سات،سات حصے  ہر ایک بیٹے کو   دیے جائیں گے۔ فیصدی لحاظ سے بیوہ کو 12.5% فیصد،اور ہر ایک بیٹے کو21.87%فیصد دیا جائےگا۔ آسانی  کے لیے نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

نمبرشمار

ورثاء

عددی حصے:32

فیصد:100%

نقدی  رقم:1,200,000

1

بیوہ

4

12.5%

150,000

2

بیٹا

7

21.87%

262,500

3

بیٹا

7

21.87%

262,500

4

بیٹا

7

21.87%

262,500

5

بیٹا

7

21.87%

262,500

حوالہ جات

قال  اللہ  تبارك و تعالی:ﵟفَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚﵞ [النساء: 12] 

قال العلامة  سراج الدين محمد السجاوندي رحمه الله:أما للزواجات فحالتان:الربع للواحدة فصاعدة  عند عدم الولد و ولدالابن وإن  سفل .والثمن مع الولد  أو ولد الابن وإن سفل.(السراجی: 32)

قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: فللزوجات حالتان :الربع بلا ولد، والثمن مع الولد.(الدر المختار  : 762)

قال العلامة ا لسرخسي رحمه الله :‌فأقرب ‌العصبات ‌الابن، ثم ابن الابن، وإن سفل، ثم الأب، ثم الجد أب الأب، وإن علا.( المبسوط للسرخسي: 29/ 174)

في الهندية :‌فأقرب ‌العصبات ‌الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم.( الفتاوى الهندية : 6/ 451)

قال العلامة الحصكفي رحمه الله:ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت، ثم أصله، ثم جزى أبيه، ثم جز جده (ويقدم الاقرب فالاقرب منهم) ‌بهذا ‌الترتيب ‌،فيقدم جزء الميت (كالابن ‌ثم ‌ابنه ‌وإن ‌سفل، ‌ثم ‌أصله ‌الاب ‌ويكون ‌مع ‌البنت) ‌بأكثر (‌عصبة ‌وذا ‌سهم) ‌كما ‌مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا). (الدر المختار  : 763)

محمد مجاہد

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

/15جمادی الثانیہ،1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مجاہد بن شیر حسن

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب