03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائی کا بہن کو حصہ کے بجائے سابقہ قیمت دینے پر اصرارکرنا
85908میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرے والد کا انتقال 1991 میں ہوا، اس وقت میری عمر ایک سال سے بھی کم تھی، جبکہ میرے دو بھائیوں کی عمریں بالترتیب 2 سال اور 3 سال تھیں۔ والد کے کچھ اثاثے والدہ کے پاس رہے۔2013 میں والدہ کا انتقال ہوا، جس کے بعد ہم نے والد کے اثاثوں کی مالیت لگوائی۔ اس حساب سے میرے حصے کی مالیت 11 لاکھ روپے تھی اور دونوں بھائیوں کے حصے 22 لاکھ، 22 لاکھ روپے تھے۔ایک بھائی نے اپنے حصے میں پراپرٹی لے لی، جبکہ دوسرے بھائی کے پاس دو پراپرٹیز رہیں، جن میں میرا اور دوسرے بھائی کا حصہ شامل تھا۔اس وقت میرے بھائی نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، اور گھر کو چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے، اس لیے ہم یہ پراپرٹی بیچ نہیں سکتے۔ اس نے کہا کہ وہ بعد میں میرے پیسے دے دے گا۔کچھ عرصے تک میں اسی گھر میں رہی، پھر کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر نانی کے گھر شفٹ ہو گئی۔ اس کے بعد میری شادی ہو گئی اور میں شوہر کے گھر آ گئی۔پھر میں نے اپنے بھائی سے اپنے حصے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ ہاں، آپ کے 11 لاکھ روپے ہیں، جو میں آپ کو دے دوں گا۔میرے حساب سے میرا حصہ اب 11 لاکھ نہیں ہے بلکہ وہ پراپرٹی ہے، جس کی موجودہ قیمت کچھ اور ہے۔یہ بات میرا بھائی نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ہماری بات ہوئی تھی کہ تمہارا حصہ 11 لاکھ ہے۔اب اس صورتحال میں مجھے دین کے مطابق کیا کرنا چاہئے؟ رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی اصولوں کے مطابق آپ کا حصہ پراپرٹی سمیت والدین کے چھوڑے ہوئےتمام سازوسامان اورنقدمیں بنتا ہے،لہذا اگر آپ نے پراپرٹی بھائی کو فروخت کرکے نقد رقم لینے کا کوئی معاہدہ نہ کیا ہو تو صرف تقسیم کے لیے 11 لاکھ قیمت لگانے سے آپ کا حق پراپرٹی سے ختم نہیں ہوا۔ لہذا، جائیداد کی قیمت میں اضافہ ہونے کے ساتھ آپ کے حصے کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے آپ کا حق پراپرٹی/اس کی موجودہ قیمت کے مطابق ہوگا، نہ کہ اُس وقت کی قیمت کے مطابق، جب تقسیم کے لیے اندازہ لگایا گیا تھا۔

حوالہ جات

وفی القران الکریم[النساء: 7]

{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا}

وفی رد المحتار:

الترکۃ في الاصطلاح ماترکہ المیت من الأموال صافیا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال۔ ( کتاب الفرائض، کراچي ۶/۷۵۹، مکتبۃ زکریا دیوبند ۱۰/۴۹۳)

وفی تکملہ فتح الملہم:

إن الأصل الأول في نظام المیراث الإسلامي: أن جمیع ماترک المیت من أملاکہ میراث للورثۃ ۔ (کتاب الفرائض، جمیع ماترک المیت میراث، مکتبۃ اشرفیۃ دیوبند ۲/)

وفی شرح المجلۃ:

إن أعیان المتوفي المتروکۃ عنہ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصہم۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز، مکتبۃ اتحاد دیوبند ۱/۶۱۰، رقم المادۃ: ۱۰۹۲)

فی الشامیة :

"لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي."

 (كتاب الشركة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص:325، ط:دار الفك)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

16/6/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب