85951 | ایمان وعقائد | ایمان و عقائد کے متفرق مسائل |
سوال
ایک عورت اپنے شوہرکوکہتی ہے کہ آپ پرداڑھی اچھی نہیں لگتی،ان الفاظ کاشرعاکیاحکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
داڑھی رکھناتمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور شعائر دین میں سے ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعار کو اپنانے کی ہدایت دی اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کامذاق اڑنایااس کوبراجاننابہت خطرناک ہے،بسااوقات اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے،صورت مسؤلہ میں اگرکوئی عورت داڑھی کے سنت رسول ہونےکے علم کے باوجود جانتے بوجھتے ہوئے داڑھی کامذاق اڑاتے ہوئے یہ جملہ بولتی ہے تواس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی اوراس کانکاح ختم ہوجائے گا،اوراگراس کامقصدداڑھی کامذاق اڑانانہیں،بلکہ اس کے علاوہ کوئی اورمقصد ہو مثلاشوہر کے داڑھی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سےیعنی داڑھی پراگندہ، میلی کچیلی اور بکھری ہوئی ہو نے کی وجہ سے کہتی ہےکہ مجھے آپ پرداڑھی اچھی نہیں لگتی تواس سے کفرلازم نہیں آتا،لیکن بہت خطرک اورسخت گناہ ہے،اس صورت میں توبہ استغفاراورتجدید نکاح لازم ہے۔
حوالہ جات
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (ج 11 / ص 342):
والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به قاضيخان في فتاواه، ومن تكلم بها مخطأ أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عالما عامدا كفر عندالكل، ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف، والذي تحرر أنه لا يفتي بتكفير مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة، فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفيرالمذكورة لا يفتى بالتكفير بها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشئ منها.
وفی رد المحتار (4/ 230):
ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط.
وفی رد المحتار (ج 16 / ص 258):
والحاصل : أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كماصرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف.
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۱۸/جمادی الثانی ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |