03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ گاڑی (شرکت ملک) میں ایک شریک کیلئے تنخواہ مقرر کرنا
85938شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

فدا محمد اور محمد ناصر نے مل کر ایک ٹرک خریدا ،دونوں برابر کے شریک ہیں۔ محمد ناصر ڈرائیور بھی ہے۔ فدا محمد نےرضا مندی سے گاڑی چلانے پر محمد ناصر کے لیے مستقل ماہانہ تنخواہ مقرر کی، محمد ناصر اس ٹرک کو کرائے پر چلاتا ہے بار برداری کے کام میں ،یعنی ایک کارخانے سے دوسرے کارخانے تک برف لے جاتا ہے ۔جو نفع ہوتا ہے اس میں سے محمد ناصر اپنی تنخواہ کاٹ کر باقی نفع آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرتا ہے، اگر نقصان ہوا تو وہ بھی آدھا آدھا ۔ پوچھنا یہ ہے کہ ناصر کا اس طرح مستقل تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ یہ طریقہ کار ٹرک چلانے والوں کے ہاں عام معروف ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں فدا محمد اور محمد ناصر کے درمیان شرکت ملک کا معاملہ  ہے ، جس میں ٹرک کو کرایہ پر چلا کر  اس سے حاصل ہونے والا کرایہ آدھا آدھا دونوں کا حق ہے ، اسی طرح ڈرائیور کی تنخواہ بھی دونوں شرکاء کے ذمہ ہے ۔ شرکت ملک میں شریک کی ذات کو مشترکہ کام کے لیے اجارہ پر لینے میں  قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ جائز نہ ہو لیکن عرف عام اور تعامل کی وجہ سے علماء نے اس کو جائز قرار دیا ہے، لہٰذا اگر محمد ناصر بطور ڈرائیور ٹرک چلاتا ہے تو بطور  ڈارئیور جو  تنخواہ  طے کی جائے ، وہ مشترکہ نفع  سےوصول کر سکتا ہے ۔

حوالہ جات

الفتاوی الخانیة (330/2، ط: مکتبۃ رشیدیۃ) :
ولو دفع غزلا إلی حائک، لینسج لہ بالثلث أو بالربع، ذکر فی کتاب: أنہ لا یجوز، ومشایخ بلخ جوّزوا ذلک؛ لمکان التعامل، وبہ أخذ الفقیہ أبو اللیث و شمس الأئمۃ الحلوانی والقاضی الإمام أبو علی النسفی رحمھم اللہ تعالی.

رسائل ابن عابدین (2/131):

(فإن قلت) إذا كان على المفتي اتباع العرف وإن خالف المنصوص عليه في كتب ظاهر الرواية فهل هنا فرق بين العرف العام والعرف الخاص كما في القسم الأول وهو ما خالف فيه العرف النص الشرعي. (قلت) لا فرق بينهما هنا إلا من جهة أن العرف العام يثبت به الحكم العام والعرف الخاص يثبت به الحكم الخاص.(وحاصله) أن حكم العرف يثبت على أهله عاماً أو خاصاً فالعرف العام في سائر البلاد يثبت حكم على أهل سائر البلاد والخاص في بلدة واحدة يثبت حكمه على تلك البلدة فقط.

احسن الفتاوی (328/7):

 شریک کو اجیر رکھنے کا عدم جواز کسی نص شرعی سے ثابت نہیں ۔ ( اسی بحث میں کچھ آگے فرماتے ہیں )ترک نصشرعی کیلئے تعامل عام شرط ہے ،مگر ترک نص مذہب کیلئے تعامل خاص بھی کافی ہے۔

منیب الرحمنٰ

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

19/جمادی الثانیہ /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

منیب الرحمن ولد عبد المالک

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب