86001 | طلاق کے احکام | طلاق سے رجو ع کا بیان |
سوال
ہمارے ایک دوست نے اپنی بداخلاق بیوی سے کہا: میں تمہیں ایک طلاق دیتا ہوں، صرف یہی بولا اور ایک ہی طلاق دی۔ اِس سے پہلے کبھی طلاق نہیں دی، پھر تین دن بعد رجوع کی نیت سے یوں کہا کہ ”میں تم سے صلح کرتا ہوں“ لیکن عورت نے اِس رجوع کو قبول نہیں کیا اور کیس کر دیا۔ تین سال یونہی گزر گئے،اِس عرصے میں خلع یا طلاق وغیرہا کچھ نہیں ہوا۔ اب دونوں خاندان راضی ہیں اور یہ مرد وعورت اکٹھے رہنا چاہتے ہیں،کیا یہ دونوں ایک ساتھ رَہ سکتے ہیں اور اِن کا نکاح باقی ہے یا دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شوہر نےکیونکہ اپنے ان الفاظ (میں تم سے صلح کرتاہوں )سےرجوع کی نیت کی تھی، لہذا میاں بیوی دونوں کے مابین نکاح برقرار ہے ، بیوی کے رد کرنے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ :الرجعۃ هي استدامة الملك القائم...في العدة...وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطأبنحوراجعتك ورددتك ومسكتك بلا نية ؛لانه صريح... إن لم يطلق بائنافإن أبانها فلاوإن أبت.(الدر المختار:ص،228)
قال العلامۃ برھان الدین رحمہ اللہ :قال لمطلقته طلاقا رجعيا: أنت عندي كما كنت، أو قال: أنت امرأتي، فإن نوى الرجعة يصير مراجعا،.( المحيط البرهاني: 3/ 425)
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها، رضيت بذلك أو لم ترض وهذا بإجماع أهل العلم.( البناية شرح الهداية: 5/ 455)
وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی :وأما ركن الرجعة فهو قول أو فعل يدل على الرجعة: أما القول فنحو أن يقول لها: راجعتك أو رددتك أو رجعتك أو أعدتك أو راجعت امرأتي أو راجعتها أو رددتها أو أعدتها، ونحو ذلك. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:3/183)
ارشاد احمدبن عبد القیوم
دار الافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
20/جمادی الاخریٰ1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ارشاد احمد بن عبدالقیوم | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |