86013 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
ہم ویب سائٹس لوگوں کوبناکردیتے ہیں اور اس کا عوض لیتے ہیں،کیا یہ لین دین جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ جس چیز کا جائز وناجائز دونوں طرح کا استعمال ممکن ہو، اس کا بنانا اور بیچنا شرعاً جائز ہے، الا یہ کہ جس شخص کو بیچی جا رہی ہو اس کے بارے میں یقینی علم یا غالب گمان ہو کہ وہ اس کا ناجائزاستعمال کرے گا۔ اس اصول کی روشنی میں چونکہ ویب سائٹ کا استعمال جائزو ناجائز دونوں طرح ممکن ہے،لہٰذا ویب سائٹ بنا کر دینا اور اس کا عوض لیناجائز ہے الا یہ کہ ڈیویلپر (ویب سائٹ بنانے والے) کو یقینی علم یا غالب گمان ہو کہ استعمال کرنے والا اسے ناجائز استعمال ہی کرے گا تو اس صورت میں یہ کام جائز نہیں ہوگا۔(تبویب بتغییر:71653)
حوالہ جات
ويكره بيع السلاح من أهل الفتنة في عساكرهم، ولا بأس ببيعه بالكوفة ممن لم يدر أنه من أهل الفتنة، وهذا في نفس السلاح، فأما ما لا يقاتل به إلا بصنعة كالحديد فلا بأس به كذا في الكافي.
(الفتاوى الهندية، 2/285، ط: دار الفكر)
وإذا استأجر الذمي مسلما ليحمل له ميتة أودما يجوز عندهم جميعا ولو استأجر ذمي من ذمي بيتا يصلي فيه لا يجوز ولو استأجر مسلما ليرعى له الخنازير يجب أن يكون على الخلاف كما في الخمر ولو استأجره ليبيع له ميتة لم يجز هكذا في الذخيرة.
(الفتاوى الهندية، 4/450، ط: دار الفكر)
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۰.جمادی الآخرۃ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |