| 86072 | فیصلوں کے مسائل | ثالثی کے احکام |
سوال
میمیرے چچا نےمیرے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا جس میں وہ قرآن پر جھوٹا حلف اٹھا کر جیت گئے اور عدالت نے میرے والد کی جائیداد نیلام کرنے کا حکم دیا اور ہم بیرون ملک رہتے ہیں اس لیے میرے چچا نے عدالت میں کہا کہ وہ بھاگ جائیں گے اس لیے میرے والد کا پاسپورٹ لے لیں جس کے خلاف ہم نے درخواست دائر کی اور عدالت نے ہمیں کہا کہ کوئی ضمانت دیں کہ آپ بیرون ملک نہیں جائیں گے جس پر میری والدہ نے عدالت میں ضمانت کے طور پر اپنا پلاٹ رکھ دیا کہ میرے والد بیرون ملک نہیں جائیں گے۔ اور میرے چچا نے دوسری عدالت میں نیلامی کے لیے درخواست دائر کی اور عدالت نے میری والدہ کا پلاٹ نیلام کر دیا جو میری والدہ نے صرف ضمانت کے طور پر رکھا تھا۔اور یہ نیلامی مارکیٹ سے کم ریٹ پر ہوئی ۔جس نے میری والدہ کا پلاٹ خریدا اس نے اس پر مدرسہ بنا دیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ مدرسہ شریعت کے مطابق جائز ہے؟ اور ہم نے اس نیلامی کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کر رکھا ہے کہ یہ نیلامی غیر قانونی ہے۔ اگر ہمیں وہ پلاٹ مل جائے تو ہم مدرسے کو گرا سکتے ہیں یا نہیں شریعت ہمیں اجازت دیتی ہے یا نہیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مذکورہ میں جس آدمی نے پلاٹ لیا ہے وہ اس پلاٹ کا مالک ہے، اس پر جو مدرسہ بنایا ہے وہ اپنی ملکیت پر بنایا ہے جو کہ جائز ہے، کیونکہ قاضی یا حاکم کو کسی کے حق کی وصولی کے لیے کسی کا مال(یعنی جس پر دعوی کیا گیا ہے) نیلام کرنا جائز ہے،جب نیلامی اور اس کا بیچنا جائز ہے تو اس کا لینا بھی جائز ہے ۔ہائی کورٹ کی طرف سے اگر پلاٹ کے متعلق فیصلہ آپ کے حق میں ہوجائے، تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ مدرسہ بنانے والے سے کوئی مصالحت کرلیں کیونکہ مدرسہ تعمیر کرنے والے نے لا علمی میں مدرسہ بنایا ہے، نیز اس میں وقف کا پیسہ بھی لگایا ہوا ہوگا،مثلا آپ مدرسہ کی تعمیر کی قیمت ادا کردیں یا مدرسہ کی زمین کا کرایہ طے کرلیں تاکہ مدرسہ جاری رہے،البتہ اگر مصالحت نہ ہوسکے،تو شرعا آپ کو مدرسہ گرانے کا حق حاصل ہوگا۔
اور مدرسہ تعمیر کرنے والے کو اختیار ہوگا کہ وہ عدالت کے ذریعے اپنی ادا کردہ قیمت وصول کرلے۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله: (لا) يبيع القاضي (عرضه ولا عقاره) للدين (خلافا لهما وبه) أي بقولهما ببيعهما للدين (يفتى) اختيار وصححه في تصحيح القدوري، ويبيع كل ما لا يحتاجه في الحال.
قال العلامة ابن عابدین رحمه الله: قوله: (خلافا لهما وبه يفتى) الأولى أن يقول وقالا: يبيع وبه يفتى كما لا يخفى ح. قوله:( أي بقولهما ببيعهما) :أي العرض والعقار، وأشار بهذا التفسير إلى أن ما عداه لا خلاف فيه.(ردالمحتار:6/151)
قال العلامة إ براھیم الحلبي رحمه الله: ويمنع من التصرف والإقرار ويبيع الحاكم ماله إن امتنع من بيعه ويقسم بين غرمائه بالحصص وإن أقر حال حجره لزمه بعد قضاء ديونه لا في الحال وينفق من مال المفلس عليه، وعلى من تلزمه نفقته والفتوى على قولهما في بيع ماله لامتناعه. (ملتقی الأبحر : 58)
قال العلامة الزیلعی رحمه الله: وقالا: إذا طلب غرماء المفلس الحجر عليه حجر عليه القاضي وباع ماله إن امتنع من بيعه وقسم ثمنه بين غرمائه بالحصص ومنعه من تصرف يضر بالغرماء كالإقرار وبيعه بأقل من قيمته. (تبیین الحقائق :5/199)
قال العلامة المرغینانی رحمه الله: قال: "وإذا بنى المشتري فيها أو غرس ثم قضي للشفيع بالشفعة فهو بالخيار، إن شاء أخذها بالثمن وقيمة البناء والغرس، وإن شاء كلف المشتري قلعه". (الھدایۃ : 4/316)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(و) يأخذ الشفيع (بالثمن وقيمة البناء والغرس) مستحقي القلع، كما مر في الغصب.(لو بنى المشتري أو غرس أو كلف) الشفيع (المشتري قلعهما) إلا إذا كان في القلع نقصان الأرض، فإن الشفيع له أن يأخذها مع قيمة البناء والغرس مقلوعة غير ثابتة قهستاني. (الدرالمختار:6/233)
محمد یونس بن امین اللہ
دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی
21 جمادى الأخری، 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد یونس بن امين اللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |


