03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت کی نیلام شدہ زمین خریدنےکا حکم
86072فیصلوں کے مسائلثالثی کے احکام

سوال

میمیرے چچا نےمیرے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا جس میں وہ قرآن پر جھوٹا حلف اٹھا کر جیت گئے اور عدالت نے میرے والد کی جائیداد نیلام کرنے کا حکم دیا اور ہم بیرون ملک رہتے ہیں اس لیے میرے چچا نے عدالت میں کہا کہ وہ بھاگ جائیں گے اس لیے میرے والد کا پاسپورٹ لے لیں جس کے خلاف ہم نے درخواست دائر کی اور عدالت نے ہمیں کہا کہ کوئی ضمانت دیں کہ آپ بیرون ملک نہیں جائیں گے جس پر میری والدہ نے عدالت میں ضمانت کے طور پر اپنا پلاٹ رکھ دیا کہ میرے والد بیرون ملک نہیں جائیں گے۔ اور میرے چچا نے دوسری عدالت میں نیلامی کے لیے درخواست دائر کی اور عدالت نے میری والدہ کا پلاٹ نیلام کر دیا جو میری والدہ نے صرف ضمانت کے طور پر رکھا تھا۔اور یہ نیلامی مارکیٹ سے کم ریٹ پر ہوئی ۔جس نے میری والدہ کا پلاٹ خریدا اس نے اس پر مدرسہ بنا دیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ مدرسہ شریعت کے مطابق جائز ہے؟ اور ہم نے اس نیلامی کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کر رکھا ہے کہ یہ نیلامی غیر قانونی ہے۔ اگر ہمیں وہ پلاٹ مل جائے تو ہم مدرسے کو گرا سکتے ہیں یا نہیں شریعت ہمیں اجازت دیتی ہے یا نہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مذکورہ میں   جس آدمی نے پلاٹ لیا ہے وہ اس پلاٹ کا مالک ہے، اس پر جو  مدرسہ بنایا ہے  وہ اپنی ملکیت پر بنایا ہے جو کہ جائز ہے، کیونکہ قاضی یا حاکم کو کسی کے حق کی وصولی کے لیے کسی کا مال(یعنی جس پر دعوی کیا گیا ہے) نیلام کرنا جائز ہے،جب نیلامی اور اس کا بیچنا جائز ہے تو اس کا لینا بھی  جائز ہے ۔ہائی کورٹ کی طرف سے اگر پلاٹ کے متعلق فیصلہ آپ کے حق میں ہوجائے،  تو  اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ آپ مدرسہ بنانے والے سے کوئی مصالحت کرلیں کیونکہ مدرسہ تعمیر کرنے والے نے لا علمی میں مدرسہ بنایا ہے، نیز اس میں وقف کا پیسہ بھی لگایا ہوا ہوگا،مثلا آپ مدرسہ کی تعمیر کی قیمت ادا کردیں یا مدرسہ کی زمین کا کرایہ طے کرلیں تاکہ مدرسہ جاری رہے،البتہ اگر مصالحت نہ ہوسکے،تو شرعا آپ کو مدرسہ گرانے کا حق حاصل ہوگا۔

اور  مدرسہ تعمیر کرنے والے کو اختیار ہوگا کہ وہ  عدالت کے ذریعے اپنی ادا کردہ قیمت وصول کرلے۔

حوالہ جات

قال العلامة الحصكفي رحمه الله: (لا) يبيع القاضي (عرضه ولا عقاره) للدين (خلافا لهما وبه) أي بقولهما ببيعهما للدين (يفتى) اختيار وصححه في تصحيح القدوري، ويبيع كل ما لا يحتاجه في الحال.

قال العلامة ابن عابدین رحمه الله: قوله: (خلافا لهما وبه يفتى) الأولى أن يقول وقالا: يبيع وبه يفتى كما لا يخفى ح. قوله:( أي بقولهما ببيعهما) :أي العرض والعقار، وأشار بهذا التفسير إلى أن ما عداه لا خلاف فيه.(ردالمحتار:6/151)

قال العلامة إ براھیم الحلبي رحمه الله: ويمنع من التصرف والإقرار ويبيع الحاكم ماله إن امتنع من بيعه ويقسم بين غرمائه بالحصص وإن أقر حال حجره لزمه بعد قضاء ديونه لا في الحال وينفق من مال المفلس عليه، وعلى من تلزمه نفقته والفتوى على قولهما في بيع ماله لامتناعه. (ملتقی الأبحر : 58)

قال العلامة الزیلعی رحمه الله: وقالا: إذا طلب غرماء المفلس الحجر عليه حجر عليه القاضي وباع ماله إن امتنع من بيعه وقسم ثمنه بين غرمائه بالحصص ومنعه من تصرف يضر بالغرماء كالإقرار وبيعه بأقل من قيمته. (تبیین الحقائق :5/199)

قال العلامة المرغینانی رحمه الله: قال: "وإذا بنى المشتري فيها أو غرس ثم قضي للشفيع بالشفعة فهو بالخيار، إن شاء أخذها بالثمن وقيمة البناء والغرس، وإن شاء كلف المشتري قلعه". (الھدایۃ : 4/316)

قال العلامة الحصكفي رحمه الله:(و) يأخذ الشفيع (بالثمن وقيمة البناء والغرس) مستحقي القلع، كما مر في الغصب.(لو بنى المشتري أو غرس أو كلف) الشفيع (المشتري قلعهما) إلا إذا كان في القلع نقصان الأرض، فإن الشفيع له أن يأخذها مع قيمة البناء والغرس مقلوعة غير ثابتة قهستاني. (الدرالمختار:6/233)

محمد یونس بن امین اللہ

دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی

21‏ جمادى الأخری،‏ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد یونس بن امين اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب