03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد دیئے گئے تحائف واپس مانگنے کا حکم
85980طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص نے   اپنی بھتیجی کی شادی بھانجےسے کرائی ،لیکن شادی کے فورا ً بعد معلوم ہوا کہ لڑکی دس سال سے ڈپریشن کی شکار ہے، شادی کے فوراًبعد بےہوش رہی، لڑکی والوں نے پہلے یہ بات چھپالی  تھی، شادی میں ہم نے سونے کے زیورات بطورِ مہر اور گفٹ میں چند سوٹ اور انگوٹھی  دی،سوال یہ پوچھنا ہے لڑکی والوں کی طرف سے باوجودہماری اس صراحت کے کہ  بچی   صحت مندہوگی    اور گھر سنبھالے گی، جو دھوکہ ہوا ، اس دھوکے کی بناء پر کیا ہم طلاق یا خلع  کے بعد  اپنے سارے گفٹ ایٹم واپس لے سکتے ہیں ؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ موہوبہ چیز (گفٹ شدہ) ہلاک ہوجائے، یا موہوبہ چیز تبدیل ہوجائے، یا موہوبہ چیز میں ایسی زیادتی جو اس کے ساتھ متصل ہو، یا واہب (گفٹ کرنے والا) عوض لینے کی شرط پر ہبہ (گفٹ) دے اور عوض بھی لے لے، یا واہب فوت ہوجائے یا موہوب لہ (جسے گفٹ کیا جائے) کی ملکیت سے موہوبہ چیز نکل جائے، یا میاں بیوی ایک دوسرے کو ہبہ کریں، یا ذی رحم محرم کو ہبہ کیا جائے تو  ان صورتوں میں ہبہ سے رجوع نہیں ہوسکتا، اور ان عوارض کے علاوہ عام صورت میں قبضہ دینے سے پہلے موہوب لہ کی رضا مندی کے بغیر بھی ہبہ سے رجوع درست ہے، اگر چہ ایسا کرنا کراہت سے خالی نہیں، اور قبضہ دینے کے بعد موہوب لہ کی رضا مندی یا قاضی کے فیصلہ کے ساتھ ہبہ سے رجوع کرنا درست ہوتا ہے، تاہم قبضہ دینے کے بعد رجوع مکروہِ تحریمی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  گفٹ ائٹم اگر شوہر نے دیے ہیں، یا شوہر کے علاوہ سسرالی رشتہ داروں  نے دیے ہیں لیکن مذکورہ بالا موانع میں سے کوئی مانع   پایا  جا رہا ہو، جیسے وہ چیز یں ہلاک ہوگئی ہوں یا لڑکی کی ملکیت سے نکل گئی ہوں وغیرہ ، توایسی صورتوں میں ہدیہ کردہ چیزوں کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔ لیکن اگر کوئی مانع نہ پایا جارہاہو تو لڑکی کی رضامندی  سے  موہوبہ (ہدیہ کردہ ) چیزوں  سے رجوع کر سکتے ہیں۔  اسی طرح   اگر خلع میں مذکورہ تحائف کو  عوض (بدلِ خلع) کے طور پر طے کیا جائے تو بھی ان تحائف کی واپسی کا مطالبہ درست ہوگا۔

حوالہ جات

صحیح  البخاری(رقم الحدیث: 2589):

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:ليس لنا مثل السوء، الذي يعود في هبته كالكلب يرجع في قيئه۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 97):

 (باب الرجوع في الهبة) قال رحمه الله (صح الرجوع فيها) يعني إذا وهب لشخص هبة وقبضها وليس فيه ما يمنع الرجوع من زيادة ،وموت أحدهما وعوض وخروج عن الملك وزوجية وقرابة محرمة للنكاح وهلاك الموهوب جاز الرجوع في الهبة...... قال رحمه الله (ومنع الرجوع دمع خزقه).......(فالدال الزيادة المتصلة كالغرس والبناء والسمن)..... والميم موت أحد المتعاقدين.... والعين العوض فإن قال خذه عوض هبتك أو بدلها أو بمقابلتها فقبضه الواهب سقط الرجوع.... والخاء خروج الهبة عن ملك الموهوب له.... والزاء الزوجية فلو وهب، ثم نكح رجع وبالعكس لا... والقاف القرابة فلو وهب لذي رحم محرم منه لا يرجع فيها.... والهاء الهلاك... قال رحمه الله (وإنما يصح الرجوع بتراضيهما أو بحكم الحاكم).

شرح المجلۃ للاتاسی (393/03):

"للواهب أن يراجع عن الهبة قبل القبض بدون رضا الموهوب له ... وهل يكره ذلك كما يكره الرجوع بعد القبض؟ الظاهر أنها لا تخلو عن الكراهة، لأن الرجوع ليس بأقل من الخلف بالوعد". حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 153):

قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها

من ذلك أو من دراهم أو دنانير ‌صبيحة ‌ليلة ‌العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا.

بداية المبتدي (ص79):

وإذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعل ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال.

حضرت خُبیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

21/جمادی الثانیہ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حضرت خبیب بن حضرت عیسیٰ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب