85782 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
سوال:ہم نے اپنی بہن کا نکاح ایک بندے سے کرایا،لیکن اچانک وہ بندہ غائب ہوگیااو رتقریباً ایک سال ہوگیا اس کا کچھ اتا پتا نہیں،اس کا ایک بھائی تھا جو اس کے ساتھ ہی غائب ہے اور والد صاحب نے بھی لا تعلقی کا اظہار کیاکہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں ہے۔ایسی صورت حال میں کیا ہم عدالت سے خلع کرالیں یا شوہر کے مفقود ہونے کی صورت میں چار سال تک شوہر کا انتظار کریں؟ جبکہ ہماری بہن جوان ہے اور اس کے لیے رشتے بھی آتے رہتے ہیں۔برائے کرم اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جس عورت کا شوہر اس طرح غائب ہوجائے کہ کسی کو بھی اس کی کچھ خبر نہ ہو تو ایسی عورت کے لیے حکم اصلی تو یہ ہے کہ اگر وہ صبر کرکے اپنا وقت عفت وپاکدامنی کے ساتھ گزار سکے تو بہتر ہے،لیکن اگر صبر نہ کرسکے اور کسی گناہ میں مبتلاء ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو یہ گنجائش ہے کہ اس کو بنیاد بنا کرقاضی کے فیصلہ سے نکاح کو فسخ کر لیا جائے۔فسخ نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مسلمان قاضی کی عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کرے،پہلے گواہوں سے اپنا نکاح اس شخص سے ثابت کرے اور پھراس بات پر گواہ پیش کرے کہ اتنے عرصہ سے میرا اس سے رابطہ نہیں اور مقدور بھر کوشش سے اس کی زندگی اور موت کا بھی علم نہ ہو سکا۔لہذا عدالت اس سے میرا نکاح ختم کر دے، پھر مذکورہ عدالت اپنے ممکنہ طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شوہر کو تلاش کرے ، اگر عدالت کے تلاش کرنے کے باوجود بھی شوہر سے رابطہ نہ ہو سکے توعدالت چار سال کی مہلت دے، اگر ان چار سالوں میں بھی اس کا کوئی کھوج نہ لگ سکے تو پھر آپ عدالت سے دوبارہ رجوع کر کے فسخ نکاح کی ڈگری لے لیں۔
فسخ نکاح کے بعد یہ عورت عدت وفات یعنی چار ماہ دس دن گزار کر کہیں اور نکاح کر سکتی ہے۔لیکن اگر غائب شوہر واپس آجائے تو اس عورت کا دوسرا نکاح خودبخود باطل ہوجائے گا اور پہلا نکاح بدستور قائم رہے گا۔
چار سال کے انتظار کا حکم اس وقت ہے جب اس دوران عورت کے لیے نان نفقہ کا انتظام ہو اور عفت و عصمت کے ساتھ یہ مدت گزار سکتی ہو، اگر نان نفقہ کا انتظام نہ ہو، نہ شوہر کے مال سے ، نہ ہی کسی عزیز و قریبی رشتہ دار کی طرف سے اور نہ ہی خود عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے کما کر گزارہ کر سکتی ہو تو جب تک صبر ہو سکے شوہر کا انتظار کرے، جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو، اس کے بعد عدالت جا کر یہ ثابت کرے کہ میرا شوہر اتنی مدت سے غائب ہے اور اس نے میرے لیے کوئی نان نفقہ نہیں چھوڑا اور نہ ہی کسی کو ضامن بنایا، نہ ہی میں نے اسے اپنا نفقہ معاف کیااور ان باتوں پر قسم بھی کھائے، مذکورہ کاروائی کے بعد عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ دے تو نکاح فسخ ہو جائے گا۔
اور اگر نفقہ کا انتظام ہے لیکن شوہر کے بغیر رہنے میں اپنی عفت و عصمت ضائع ہونے کا اندیشہ ہے تو سال بھر صبر کرنے کے بعد عدالت سے رجوع کر کے اپنے شوہر کاگم ہونا ثابت کر ے اور اس پر قسم کھا کر کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی،عدالت سےنکاح فسخ کرالیں۔
ان دونوں صورتوں میں یہ فسخ نکاح طلاق رجعی کے حکم میں ہو گا، اس لیے اس صورت میں طلاق کی عدت تین حیض گزار کر کہیں اور نکاح کر سکتی ہے،لیکن اگر شوہر عدت کے اندر واپس آکر رجوع کرے تو رجوع درست ہوجائے گی اور یہ عورت پہلے شوہر کی ہی بیوی رہے گی اور اگر عدت کے بعد آتا ہے یا پہلے آکر عدت کے اندر رجوع نہ کرے تو بیوی اس پر بائنہ ہوجائے گی۔
صورت مسئولہ میں چونکہ ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لہذا اگر آپ کی بہن کے لیے شوہر کے بغیر عفت کے ساتھ وقت گزارنا مشکل ہو توآپ فی الفور عدالت سے رجوع کرکے مذکورہ طریقے کے مطابق نکاح فسخ کراسکتے ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصفکی رحمہ اللہ تعالی : (ولا يفرق بينه وبينها ولو بعد مضي أربع سنين) خلافا لمالك. (الدر المختار :4/ 295)
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی : قوله:(خلافا لمالك) فإن عنده تعتد زوجة المفقود عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين، وهو مذهب الشافعي القديم،وأما الميراث فمذهبهما كمذهبنا في التقدير بتسعين سنة، أو الرجوع إلى رأي الحاكم…وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن . (رد المحتار:4/ 295)
وقال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ تعالی : وقال مالك: إذا مضى أربع سنين يفرق القاضي بينه وبين امرأته ،وتعتد عدة الوفاة ،ثم تتزوج من شاءت. (الھدایۃ:2/ 424)
وقال العلامۃ السرخسي رحمہ اللہ تعالی: وكأن عمر رضي الله عنه إنما رجع عن قوله في امرأة المفقود لما تبين من حال هذا الرجل، وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت،ثم أتى الزوج الأول حيا إنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر.( المبسوط: 11/ 37)
و في الميزان الشعرانيۃ :ومن ذلك قول أبي حنيفة أن المفقودإذا قدم بعد أن تزوجت زوجته بعد التربص يبطل العقد وهي للأول، وإن كان الثاني وطئها فعليه مهر المثل وتعتد من الثاني ثم ترد إلى الأول.(الميزان الشعرانيۃ:124/2)
(حیلہ ناجزہ ،ص:59 تا 72) (احسن الفتاوی،ص:420)
(التبویب:فتوی نمبر:74019/61)
جنید صلاح الدین
دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
21/جمادی الثانیہ6144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |