03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں پر خرید کر نقد فروخت کرنا
85981خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

زید نے گاڑی قسطوں پر 20 لاکھ روپےمیں خریدی اور10لاکھ نقد پر احمدکو  فروخت کی تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟اگر زید کو قرض کی ضرورت ہو تو اس طرح زید  کےلئےگاڑی خرید کر نقد پر فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگرزیدقسطوں پر گاڑی خریدکرفروخت کنندہ کے علاوہ احمدکو نقد پر  بیچتاہے تویہ جائز ہے،چاہےنقد پر بیع میں قیمت کم رکھی جائے۔البتہ اس طریقہ کومستقل قرض کے حصول کا ذریعہ بنانا شرعا پسندیدہ نہیں،اگر زید کو ذاتی ضروریات کے لئے نقد رقم کی ضرورت ہو تو زید جس سے گاڑی قسطوں پر خریدتاہے اس کےلئےقرض دینے میں وسعت ہو توگاڑی فرو خت کرنے کی بجائےزیدکو قرض دینا اولیٰ اور باعثِ ثواب ہے، اور اگر اسے کاروباری مقاصد کے لئے نقد رقم کی ضرورت ہو تو پھر حسبِ موقع شرکت، مضاربت، بیعِ استصناع یا بیعِ سلم  وغیرہ میں سے کوئی عقد کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

بحوث في قضايا فقهية معاصرة (2/67-46):

التورق فی اصطلاح الفقهاء: أن یشتری المرء سلعة نسیئة، ثم یبیعها نقدًا لغیر البائع بأقل مما اشتراها به؛ لیحصل علی النقد…….. و حاصل ما ذکر نا أن التورق عملیة جائزة فی نفسها، و غاية ما فی الباب -کما قال ابن الهمام ؒ -  أنه خلاف الأولی إن کان البائع یعلم أن المشتری محتاج إلی نقود لأغراضه الشخصية،  ولا یشتری السلعة بثمن غال إلا بسبب حاجته إلیها، فلو کان فی مکنة البائع أن یقرضه النقود التی یحتاج إلیها فلا شك أنه الأفضل والأکثر أجرا، فترک الإقراض فی هذه الحالة واللجوء إلي بيع السلعة بثمن أکثر خلاف الأفضل ........و کذلك إن کان البائع یعرف أن المشتری المتورق یحتاج إلی سیولة نقدیة لأغراضه التجاریة، و مقصوده الحصول علی التمویل؛ فالأفضل للبائع أن یعقد معه الشرکة أو المضاربة لکونهما طریقین مفضلین للتمویل، فالعدول عنهما إلی التورق خلاف الأولی کلما کان الطریق المفضل میسرًا، و لکن لا سبیل إلی القول بأنه یجب علیه أن یعقد معه الشرکة أو المضاربة و لا یدخل فی التورق.

ولکن ما ذکرنا من جواز التورّق عند جمهور الفقهاء انما یتأتی فی التورّق الذي هو عبارة عن عمیلتین بسیطتین: إحداهما شراء السلعة بالأجل، و ثانیتهما بیعها فی السوق عاجلا. و التورق الذی تصوره الفقهاء و حکموا بجوازه هو أن السلعة موجودة عند البائع مملوکة له ملکًا حقیقیًا، ثم تنتقل ملکیتها إلی المشتری بحکم البیع الحقیقی الذی تتبعه جمیع أحکام البیع.

المعاییر الشرعیة (767):

 .2 تعریف التورق و تمییزه عن بیع العینة:

التورق: شراء سلعة بثمن آجل مساومة أو مرابحة ثم بیعها إلی غیر من اشتریت منه للحصول علی النقد بثمن حال. أما العینة: فهی شراء سلعة بثمن آجل و بیعها إلی من اشتریت منه بثمن حال أقل.

4. ضوابط صحة عملیة التورق:

4/5 وجوب أن یکون بیع السلعة (محل التورق) إلی غیر البائع الذی اشتریت منه بالأجل (طرف ثالث)؛ لتجنب العینة المحرمة، و ألا ترجع إلی البائع بشرط أو مواطأة أو عرف. 

4/6 عدم الربط بین عقد شراء السلعة بالأجل و عقد بیعها بثمن حال، بطریقة تسلب العمیل حقه فی قبض السلعة، سواء کان الربط بالنص فی المستندات، أم بالعرف، أم بتصمیم الإجراءات.

مہیم وقاص

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

22/جمادی الثانیہ /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

مہیم وقاص بن حافظ عبد العزیز

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب