86735 | طلاق کے احکام | وہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے |
سوال
مفتی صاحب میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر آپ سے شرعی رائے لینا چاہتی ہوں۔ اگر ایک عورت کا شوہر اسے شدید ذہنی اور جذباتی اذیت دیتا ہو ، اور عورت دماغی طور پر اس قدر ماؤف ہو جائے کہ وہ کسی کو بیان بھی نہ کر سکے کہ وہ کس کرب سے گزر رہی، یہاں تک کہ اسے جسمانی بیماریاں لگ چکی ہیں ۔ شوہر اس تمام اذیت کو اسلام کی بنیاد پر درست ثابت کرتا ہو، جس سے عورت کا اللہ پر یقین متزلزل ہونے لگے۔ شوہر نے بہت دفعہ ہاتھ بھی اٹھایا ہو مگر بند کمرے کے اندر اور اس کا کوئی گواہ نہ ہو۔ شادی سے پہلے اس کے والدین نے عورت کے والدین سے وعدہ کیا ہو کہ عورت اگر الگ گھر کا مطالبہ کرتی ہے تو پورا کیا جائے گا، جبکہ تین بچوں اور شادی کے چھ سال کے بعد عورت نے الگ گھر کا مطالبہ کیا تو ساس نے خاندان کے بڑوں اور بچوں کے سامنے اسے ذلیل کیا، شوہر نے بھی الگ ذلیل کیا۔ اس طرح کے بہت سے معاملات رہے ہوں شادی شدہ زندگی میں کہ عورت ڈپریشن میں چلی جائے اور تین چھوٹے چھوٹے بچے نظر انداز ہونے لگ جائیں ۔ ساس سسر اور شوہر نے عورت کے والدین کو بھی ذلیل کیا ہو۔ اب عورت جب طلاق کا مطالبہ کرے تو یا تو شوہر طلاق نہ دے یا پھر طلاق نامے پر عورت کے کردار کے بارے میں غلط بات لکھے۔ ایسی صورت میں کیا عدالت تنسیخ نکاح کر سکتی ہے ؟ عدالت اگر اس شخص کو کورٹ بلائے گی اور وہ مرد عورت آمنے سامنے ہوں گے ، تو اس میں صرف عورت کو ذہنی اذیت ہونی ہے اور عین ممکن ہے کہ اس ذہنی اذیت کی وجہ سے وہ اپنا مسئلہ بھی صحیح طرح بیان نہ کر سکے۔ میں نے سوال اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر پوچھا ہے۔ کیا ایسی صورت میں عورت صرف عمر قید ہی گزارے گے ایسے شخص کے ساتھ ؟ یہ بات یاد رہے کہ ایسا شخص دنیا کے سامنے بیوی کو ہر ہفتے کہیں گھمانے لے کر جاتا ہے اور ساس سسر دنیا کے سامنے مہنگے تحائف دیتے ۔ عورت خود بھی خاندانی طور پر کافی مالدار ہے ، اس لیے یہ کھانا پینا اور تحائف اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا پابند کیا ہے ،لہذا دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کا معاملہ کریں۔ اسی طرح بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے والدین کے ساتھ ایسا رویہ رکھے جس طرح کہ اپنے والدین کے ساتھ رکھتی ہے اور کوئی ایسی صورت حال پیدانہ کرے کہ جس کی وجہ سے شوہر متنفر ہوکر حسِن سلوک چھوڑ دے ،پھر بھی اگر بغیر کسی سبب کے شوہر کی طرف سے تکلیف اور اذیت مل رہی ہے تو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، اللہ سے دعا مانگنی چاہیے اور اچھے اخلاق سے شوہرکومتاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر عورت ایسی صورت حال میں نہیں رہ سکتی تو پھر شوہر کو خلع پر راضی کرنے کی کوشش کرے ،تاہم یہ اعذارایسے نہیں جن کی وجہ سے فسخ ِنکاح شرعاً جائز ہو اور اگر عدالت نے اس صورت میں یکطرفہ خلع کی ڈگری جاری بھی کی تب بھی وہ شرعاً معتبر نہیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر خلع یا طلاق لے لی جاتی ہے تو ہمارے معاشرے میں ایسی عورت کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ،اس کی پوری زندگی اجیرن ہوجاتی ہے،نہ کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے اور نہ ہی اکیلےعورت کے لیے زندگی گزارنا ممکن ہوتا ہے،لہذا مستقبل کےبھیانک منظر کوسامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
جہاں تک الگ گھر کے مطالبہ کی بات ہے تو دراصل شوہر کے ذمہ لازم ہے کہ بیوی کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کرے۔علیحدہ رہائش کا مطلب کہ گھر کا ایسا کمرہ ،غسل خانہ اور کچن بیوی کو دینا چاہیے جہاں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو،صحن اگرچہ مشترک ہو،چنانچہ یہ سب دینے سے واجب ادا ہوجاتاہے اور بیوی کااس سےزائد کا مطالبہ پورا کرنا شوہر پر ضروری نہیں، تاہم اگر شوہر صاحبِ حیثیت ہے اورعلیحدہ گھر کے انتظام پر قادر ہے تو علیحدہ گھرکا انتظام کرکےدینا چاہیے۔
حوالہ جات
وقال العلامۃ الكاساني رحمہ اللہ:أما وجوبها فقد دل عليه الكتاب والسنة والإجماع والمعقول أما الكتاب العزيز فقوله عز وجل {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: 6] أي: على قدر ما يجده أحدكم من السعة والمقدرة والأمر بالإسكان أمر بالإنفاق؛ لأنها لا تصل إلى النفقة إلا بالخروج والاكتساب وفي حرف عبد الله بن مسعود رضي الله عنه أسكنوهن من حيث سكنتم وأنفقوا عليهن من وجدكم وهو نص وقوله عز وجل {ولا تضاروهن لتضيقوا عليهن} [الطلاق: 6] أي: لا تضاروهن في الإنفاق عليهن فتضيقوا عليهن النفقة فيخرجن أو لا تضاروهن في المسكن فتدخلوا عليهن من غير استئذان فتضيقوا عليهن المسكن فيخرجن. (بدائع الصنائع: 4/ 15)
وقال العلامۃ الزيلعي رحمہ اللہ:تجب لها السكنى في بيت ليس فيه أحد من أهله، ولا من أهلها إلا أن يختارا ذلك. (تبيين الحقائق :3/ 58)
وفي الهندية :تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز.(الفتاوى الهندية:1/ 556)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله.
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قلت: وفي البدائع: ولو أراد أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأمه وأخته وبنته فأبت فعليه أن يسكنها في منزل منفرد؛ لأن إباءها دليل الأذى والضرر ولأنه محتاج إلى جماعها ومعاشرتها في أي وقت يتفق لا يمكن ذلك مع ثالث؛ حتى لو كان في الدار بيوت وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا ليس لها أن تطالبه بآخر. اهـ فهذا صريح في أن المعتبر عدم وجدان أحد في البيت لا في الدار.... قلت: وهكذا نقله في البزازية عن الملتقط المذكور. والذي رأيته في الملتقط لأبي القاسم الحسيني وكذا في تجنيس الملتقط المذكور للإمام الأسروشني هكذا: أبت أن تسكن مع ضرتها أو صهرتها، إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك.... قلت: والحاصل أن المشهور وهو المتبادر من إطلاق المتون أنه يكفيها بيت له غلق من دار سواء كان في الدار ضرتها أو أحماؤها. (ردا لمحتار:3/599-601)
محمدشوکت
دارالافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
25/رجب المرجب1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدشوکت بن محمدوہاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |