86037 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
السلام علیکم !پیسے لے کرٹک ٹاک( TikTok )اور دوسرے پلیٹ فارم پر لائک اور ویوز بڑھانے کا کام کرنا جائز ہے ؟
میں ایک کمپنی میں ملازم ہو ںوہ کمپنی یہ کام کرتی ہے ،لیکن مجھے صرف اُن لوگوں کا آرڈر لینا اور آ گے ڈلیور کرنا ہوتا ہےکیا یہ کام جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ٹک ٹاک یا دوسرے پلیٹ فارم پر ویڈیوز کے ویوزاور لائک بڑھا نے کا کام ایک اجارہ(ملازمت ) ہے، جس میں کسی کی ویڈیو کے ویوز یا لائک بڑھانے پر اس کو اجرت ملتی ہے،اگر کوئی کمپنی جائز طریقوں سےحقیقی ویوز بڑھانے کا کام کرتی ہو، مثلا ایڈز وغیرہ چلا کر حقیقت میں دیکھنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے،تو اس کمپنی میں کام کرنا جائز ہے
اگر کوئی کمپنی مختلف سکیموں کے ذریعے فیک ویوز بڑھانے کا کام کرتی ہو، تو اس کمپنی میں کام کرنا جائز نہیں ،چونکہ یہ کام دھوکے بازی یا جھوٹی شہرت حاصل کرنے پر مشتمل ہے، نیز اس سے دیکھنے والوں کوبھی دھوکا لگتا ہے ،کیونکہ حقیقت میں اس کی ویڈیو کے ویوز اور لائک اتنے نہیں ہوتے جتنےا سکرین پر دکھائی دیتے ہیں ۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصکفی رحمه الله: وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له ؛لأنها منفعة غير مقصودة من العين، بزازية وسيجيء. (الدرالمختار:6/4)
قال العلامة الطوري رحمه الله: (ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) ؛ لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجرة من غير أن يستحق عليه؛ لأن المبادلة لا تكون إلا عند الاستحقاق، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه (تکملۃ البحر الرائق :8/23)
محمد یونس بن امین اللہ
دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی
23 جمادى الأخری، 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد یونس بن امين اللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |