03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صلح یا معافی کی وجہ سے قاتل کی صرف سزا معاف ہوگی یا جرم ہی کالعدم تصور ہوگا؟ (سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک سوال کا جواب)
86081فیصلوں کے مسائلثالثی کے احکام

سوال

وفاقی وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کو مراسلہ (JI) 2024-AD/(1) 10. F.NO، سپریم کورٹ میں دائر سول اپیل نمبر 1926/2019 سے متعلق موصول ہوا۔ آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ عدالتی حکم نامے کی روشنی میں اپنی آراء ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کو ارسال فرمادیں۔ عدالتی حکم نامہ لف ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ذیل میں اولاً منسلکہ عدالتی حکم نامہ (ORDER) کا شق وار اردو ترجمہ لکھا جاتا ہے، اس کے بعد ان شاء اللہ اس کے ضمن میں مذکور حل طلب سوال کا جواب لکھا جائے گا۔

  1. عدالت میں زیرِ بحث معاملے میں برابر درجے کے مختلف بینچز کی طرف سے مختلف آراء سامنے آئیں۔ اس لیے اسے پانچ ممبران پر مشتمل لارجر بینچ کے سامنے غور و فکر کے لیے رکھا گیا۔
  2. معاملہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ء کی دفعہ نمبر 345 کے تحت تعزیر کیس میں متاثرہ شخص کے قانونی ورثا کے ساتھ صلح/ سمجھوتہ کرنے کی تشریح اور اثر سے متعلق ہے کہ کیا ایسی صورت میں مجرم مکمل طور پر بری ہوگا یا صلح اور سمجھوتہ کے نتیجے میں صرف اس کی سزا/قید  ختم ہوگی، لیکن جرم اور اس کے معاشرتی اثرات باقی رہیں گے؟
  3. اس معاملے کا کچھ پسِ منظر یہ ہے کہ ایک صدارتی آرڈیننس متعدد مرتبہ جاری ہوا تھا، جس کے نتیجے میں فوجداری قانون میں 11 اپریل 1997ء کو ترمیم کی گئی تھی، اس ترمیم کے ذریعے پاکستان پینل کوڈ 1860ء (PPC)  ) اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ء (the Code) میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ ان تبدیلیوں کا مقصد پاکستان پینل کوڈ (PPC) اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ء (the Code)  کو قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی  تعلیمات کے مطابق بنانا تھا۔
  4. پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ نمبر 300 جو قتل کے جرم کو بیان کرتی ہے، مذکورہ بالا ترمیم کے مطابق اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور قتل کی تعیین قتلِ عمد سے کی گئی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 302 (b) قتلِ عمد کی سزا بطورِ تعزیر موت یا تا حیات قید بتاتی ہے۔ دفعہ نمبر 345 کی ذیلی دفعہ (1) یہ بتاتی ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت قابلِ سزا جرائم کے بدلے میں صلح کی جاسکتی ہے، ان جرائم اور صلح کے مجاز لوگوں کی تفصیل متعلقہ مقامات پر لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ قتلِ عمد جس کی سزا پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ نمبر 302 میں بیان کی گئی ہے، کو بھی ان جرائم میں شامل کیا گیا ہے جن سے صلح ہوسکتی ہے اور مقتول کے ورثا کو ملزم/مجرم کو معاف کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا ترمیم سے پہلے قتل اور دیگر سنگین جرائم قابلِ صلح نہیں تھے، ان کے بدلے میں صلح نہیں کی جاسکتی تھی۔
  5. فوج داری قانون کے موافقِ اسلام ہونے کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پینل کوڈ (PPC) میں مزید دو دفعات کا اضافہ کیا گیا، ایک دفعہ نمبر 338 (F) اور ایک دفعہ نمبر 338 (G)۔ دفعہ نمبر 338 (F) یہ بتاتی ہے کہ ان دفعات کی تشریح میں بنیادی مأخذ اسلامی تعلیمات ہوں گی، یہ دفعہ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کے باب نمبر(XVI) سے متعلق ہے، اور یہ باب انسانی جسم کے خلاف جرائم کے بیان پر مشتمل ہے۔ دفعہ نمبر 338 (G) حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اس باب کے مقاصد پورے کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے مشورے سے قوانین بنائے۔ چنانچہ اس دفعہ کی روشنی میں 2007ء میں دیت، ارش اور ضمان فنڈ کے قواعد و ضوابط بنائے گئے۔ لیکن جرائم سے صلح کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی قواعد و ضوابط نہیں بنائے گئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہیں ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام قوانین کی قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت کو یقینی بنایا جائے۔ 
  6. شق نمبر (6) میں پہلے سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں قتلِ عمد کی اخروی سزا کا بیان ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقتول کے ورثاء/اولیاء کو بدلہ نہ لینے اور معاف کرنے کی ترغیب دی ہے اور سورۃ البقرۃ کی آیت 178 کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں قصاص کا ذکر ہے اور مقتول کے ورثاء/اولیاء کاقاتل کو معاف کرنے کا بیان ہے۔
  7. یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر قتل سے صلح ہوجاتی ہے تو کیا قرآنِ پاک اس جرم کو مکمل ختم قرار دیتا ہے یا دوبارہ ایسا کرنے سے روکنے کے لیے اس کے ریکارڈ کو باقی رکھا جائے گا؟ اس کے بعد سورۃ المائدۃ آیت نمبر 95 کے آخری حصے کا حوالہ دیا ہے، جس میں حالتِ احرام میں شکار اور اس کا کفارہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کچھ ہوچکا ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمایا، لیکن آئندہ جو شخص دوبارہ ایسا کرے گا تو اس سے اللہ تعالیٰ بدلہ لیں گے۔ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 309 اور 310 عفو اور صلح کو بیان کرتی ہے، لیکن اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی کہ عفو یا صلح جرم کو ریکارڈ سے مکمل ختم کرے گی۔
  8. پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 338 (E) مخصوص جرائم کے بارے میں یہ بتاتی ہے کہ ان سے صلح ہوسکتی ہے اور ان جرائم کی معافی یا صلح پر دفعہ نمبر 309 اور 310 کے احکام کا مناسب تبدیلیوں کے ساتھ اطلاق ہوگا۔ لیکن اس شق  میں آگے وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عدالت اس صلح کو قبول کرنے کی پابند نہیں ہوگی، بلکہ عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کیس کے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے مجرم کو چھوڑ دے یا جرم کی نوعیت کے اعتبار سے اس کو تعزیری سزا دے۔ قانون یہ نہیں کہتا کہ عدالت ملزم/مجرم کو صرف اس بنیاد پر چھوڑنے کی پابند ہے کہ جرم سے صلح ہوگئی ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ کیس کے حقائق اور حالات کو بغور دیکھے، جس میں کیس کی سماعت کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔ اس سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ (PPC) اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر  1898ء (the Code) میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو صراحتًا یا ضمنًا یہ بتاتی ہو کہ جب صلح قبول کی جائے تو مجرم کی سزا کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ دفعہ نمبر 345 کی ذیلی شق نمبر 6 بتاتی ہے کہ صلح کے نتیجے/اثر میں (مجرم کی) بریت (acquittal) ہونی چاہیے۔
  9. پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 338 (F) یہ بتاتی ہے کہ ان دفعات کی تشریح میں قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدالت کی راہنمائی کی جائے۔ اس لیے ہم اس حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق تعاون کے طلب گار ہیں۔  
  10. اس آرڈر کے نکتہ نمبر 3 میں جس صدارتی ترمیم کا ذکر آیا ہے، اس نے دفعہ 381 میں یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ: اگر مقتول کے ورثاء/ اولیاء نے مجرم کو معاف کیا یا اس سے صلح کی تو قتل کی سزا جاری نہیں کی جائے گی، اگرچہ یہ معافی یا صلح سزا جاری ہونے سے متصل پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر مقتول کے ورثاء/ اولیاء مجرم کو معاف کریں یا اس کے ساتھ صلح کریں تو جرم کے نتیجے میں ثابت ہونے والی سزا ختم کی جاسکتی ہے، لیکن کیا مجرم کو معاف کرنے کے ساتھ وہ جرم کو مکمل ختم کرنے (Setting aside) اور مجرم کو رہا کرنے کا عدالتی اختیار بھی استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یہ سوال بھی حل ہونا چاہیے۔
  11. معافی کا دار و مدار جرم ثابت ہونے یا اقرار کرنے پر ہے۔ کیا قرآن و سنت یہ بتاتے ہیں کہ اگر قاتل کو معاف کیا جائے تو وہ جرم سے بری (exonerated) اور رہا (acquitted) ہوجائے گا؟ یا یہ کافی ہے کہ قاتل کو قید سے رہا کر کے اس کی سزا (نہ کہ جرم) کم کردی گئی۔  یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر قاتل کو رہا کیا جاتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ گویا اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہی نہیں ہے؟ اگر رہائی کا یہی مطلب ہے تو کیا یہ ایک جعلی حقیقت (factual faction) کو جنم نہیں دے گی؟ اور کیا اس کے کچھ مضمرات نہیں ہوں گے؟ مثلاً جب وہ مجرم جس نے مقتول کے ورثاء / اولیاء کے ساتھ صلح کی ہو، ملازمت کے لیے درخواست دے گا تو اس کو اپنے اس جرم (Conviction) کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی؛ کیونکہ وہ تو صلح کے نتیجے میں بری ہوا تھا؟  
  12. پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 75 مذکورہ جرم (قتلِ عمد) کے مجرم کے لیے اضافی سزا تجویز کرتی ہے۔ اور دفعہ 311 قرار دیتی ہے کہ مجرم کے سابقہ طرزِ عمل/ ریکارڈ اور اس بات کو ملحوظ رکھا جائے گا کہ اس پر ماضی میں کوئی جرم/ سزا ثابت ہوئی ہے یا نہیں۔ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ  311-Nبتاتی ہے کہ کسی کو جانی نقصان پہنچانے کے کیسز (Cases of hurt) میں عدالت ارش/ضمان کے علاوہ اس مجرم کو تعزیری سزا بھی دے سکتی ہے جس کے ریکارڈ میں پہلے سے کوئی جرم موجود ہو یا وہ عادی مجرم ہو۔ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 221 (7)، 1-265 اور 511 سابقہ جرائم سے متعلق ہیں، جبکہ دفعہ 348، 497 اور 565 پہلے سے سزا یافتہ مجرموں سے متعلق ہیں۔ سزا دیتے وقت سابقہ سزائیں بھی متعلقہ رہیں گی۔ مجرم کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے یا کم سے کم، اس کا تعین مجرم کے طرزِ عمل/ ریکارڈ اور سابقہ جرائم کو مدِ نظر رکھ کر کیا جائے گا۔ اس لیے اگر سابقہ سزا/ سزاؤں کو اس وجہ سے کالعدم سمجھا جائے کہ صلح کی وجہ سے مجرم کو بری کردیا گیا تھا تو کیا یہ قانونی دفعات بے کار نہیں ہوجائیں گی؟ یہ عدالت جو فیصلہ کرے گی، اس کے ممکنہ اور سابقہ اطلاق کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔  
  13. یہ شق زیرِ بحث مسئلے کے شرعی یا قانونی پہلو سے متعلق نہیں ، اس لیے اس کے ترجمے کی ضرورت نہیں۔
  14. چونکہ یہ معاملہ اہم شرعی پہلوؤں پر مشتمل ہے، اس لیے درجِ ذیل شقوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

پاکستان پینل کوڈ (PPC)  کی دفعہ 338-F:

  1. : تشریح: اس باب کی دفعات کی تشریح اور تطبیق میں اور ذیلی معاملات اور نظائر میں قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کورٹ کی راہنمائی کی جائے گی۔

نفاذِ شریعت ایکٹ 1991ء کی دفعہ 4:

  1. . اس ایکٹ کے مقصد کے پیشِ نظر شریعت کی روشنی میں قوانین کی تشریح کرنا۔
  2. الف) آئینی قانون کی تشریح کرتے ہوئے اگر ایک سے زیادہ تشریحات ممکن ہوں تو عدالت اس تشریح کو اختیار کرے گی جو اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

(ب) جہاں پر دو یا دو سے زیادہ تشریحات یکساں ممکن ہوں تو عدالت اس تشریح کو اختیار کرے گی جو آئین میں بیان کردہ راہنما اصولوں (Principles of policy) اور اسلامی دفعات (Islamic provisions) کو آگے بڑھاتی ہو۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 227:

.227 (1) پہلے سے موجود تمام قوانین کو قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے گا جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی تعلیمات حوالہ دیا گیا ہے، اور اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی نیا قانون نہیں بنایا جائے گا ۔ کسی مسلم فرقہ کے شخصی قوانین (Personal law) پر اس شق کا اطلاق کرتے ہوئے قرآن و سنت کی عبارت سے مراد وہ تشریح ہوگی جو اس فرقہ والے مراد لیتے ہوں۔  

(2) شق نمبر (1) کے احکام کو صرف اسی طریقے کے مطابق نافذ کیا جائے گا جو اس حصے میں بیان کیا گیا ہے۔

(3) اس حصے کا کوئی امر غیر مسلم شہریوں کے شخصی قوانین (Personal law) یا بطورِ شہری ان کی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوگا۔  

مذکورہ بالا تفصیل کے پیشِ نظر یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے توسط سے اسلامی نظریاتی کونسل اور منظور شدہ دینی تعلیمی بورڈز کی تحریری رائے حاصل کی جائے۔  

     15. یہ شق بھی معاملے کے شرعی یا قانونی پہلو سے متعلق نہیں ہے۔

خلاصۂ سوال:

اس عدالتی حکم نامہ کا حاصل یہ ہوا کہ اگر مقتول کے اولیاء قاتل کو معاف کریں یا اس کے ساتھ صلح کریں تو کیا قاتل کے اس جرم کو کالعدم سمجھا جائے گا یا معافی اور صلح کی وجہ سے صرف قصاص معاف ہوجائے گا، جبکہ اصل جرم ثابت مانا جائے گا اور آئندہ بھی پیشِ نظر رکھا جائے گا؟

جواب:

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے نصوص اور فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ معافی اور صلح کی وجہ سے صرف قصاص ساقط ہوتا ہے؛ کیونکہ وہ مقتول کے اولیاء کا حق ہوتا ہے، اس لیے ان کے ساتھ صلح کرنے اور ان کے معاف کرنے سے یہ سزا ختم ہوجاتی ہے، لیکن اصل جرم کالعدم نہیں ہوتا؛ کیونکہ اصل جرم یعنی قتل کا ارتکاب تو قاتل کرچکا ہے، اسی وجہ سے آخرت میں اس پر مؤاخذہ ہوگا اور مختلف دنیوی احکام میں بھی اس کا اعتبار کیا جاتا ہے، مثلاً:

  • قاتل صلح یا معافی کے باوجود اپنے مقتول مورِث (قاتل شرعا جس مقتول کا وارث بن سکتا تھا) کی میراث میں حصے کا حق دار نہیں ہوتا۔
  • اگر حاکم مناسب سمجھے تو مقتول کے اولیاء کے ساتھ صلح یا ان کی معافی کے باوجود قاتل کو تعزیری سزا دے سکتا ہے؛ کیونکہ اس جرم کے اثرات مقتول کے علاوہ پورے معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر:2،3 اور 5 تا 11)
  • حاکم صلح یا معافی کے باوجود مجرم کے آئندہ کے معاملات میں اس جرم کو مدِ نظر رکھ سکتا ہے۔  (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر:8)
  • اگر قاتل نے قتلِ عمد کے علاوہ شبہِ عمد، قتلِ خطأ یا جاری مجری الخطأ کے ذریعے مقتول کو قتل کیا ہو اور اولیائے مقتول دیت معاف کردیں تو کفارہ کے روزے پھر بھی رکھنا لازم ہوتا ہے۔  (ملاحظہ فرمائیں عبارت نمبر:6)

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کے جرم کو صلح اور معافی کے باجود مختلف شرعی احکامات (میراث سے محرومی، تعزیر اور کفارہ کے وجوب وغیرہ) میں مدِ نظر (Consider) رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اگر قتلِ عمد کے مرتکب شخص کو مقتول کے اولیاء معاف کردیں یا اس کے ساتھ صلح کردیں تو اس شخص کی سزا معاف ہوجائے گی، لیکن جرم کالعدم تصور نہیں ہوگا، لہٰذا:-

  • اگر اس سے آئندہ کہیں اس جرم (Conviction) کے بارے میں سوال ہوگا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے قتل کا ارتکاب نہیں کیا، بلکہ پوری بات بتانے کا پابند ہوگا کہ جرم کیا تھا، لیکن پھر صلح ہوئی تھی یا معافی مل گئی تھی۔
  • عدالت معاشرے کی مصلحت اور جرائم کے سدِ باب کے پیشِ نظر صلح اور معافی کے بعد جہاں ایسے شخص کے ریکارڈ میں اس کے جرم کا تذکرہ مناسب سمجھے، وہاں اس کا ذکر کرنے کے احکامات جاری کرسکتی ہے۔
  •  آئندہ اس شخص کے معاملات میں اس جرم کو مدِ نظر رکھا جاسکتا ہے۔

البتہ کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرنا چاہیے جس سے قاتل صلح، معافی اور توبہ کے باوجود زندگی بھر کے لیے کسی حق سے محروم ہو، مثلا سرکاری ملازمت کے لیے تاحیات نااہلی۔

حوالہ جات
  1. القرآن الکریم:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [البقرة: 178].

(2) السنن الكبرى للبيهقي (8/ 36):

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن رجلا قتل عبده متعمدا فجلده النبى -صلى الله عليه وسلم- مائة جلدة ونفاه سنة ومحا سهمه من المسلمين ولم يقده به وأمره أن يعتق رقبة.

(3) مصنف ابن أبي شيبة (9/ 304):

28083- حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن إسحاق بن أبي فروة ، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين ، عن أبيه ، عن علي ، قال : أتي النبي صلى الله عليه وسلم برجل قتل عبده متعمدا ،فجلده رسول الله صلى الله عليه وسلم مئة جلدة ، ونفاه سنة ، ومحا سهمه من المسلمين ، ولم يقده منه.

(4) رد المحتار -تحقیق الدکتور حسام الدین فرفور- (23/ 95-94):

قدمنا آنفا أنه بالعفو عنه يبرأ في الدنيا، وهل يبرأ فيما بينه وبين الله تعالى؟ هو بمنزلة الدين على رجل فمات الطالب وأبرأته الورثة يبرأ فيما بقي، أما في ظلمه المتقدم لا يبرأ، فكذا القاتل لا يبرأ عن ظلمه ويبرأ عن القصاص والدية، تاترخانية.

 أقول: والظاهر أن الظلم المتقدم لايسقط بالتوبة لتعلق حق المقتول به، وأما ظلمه على نفسه بإقدامه على المعصية فيسقط بها، تأمل.

وفي الحامدية عن فتاوى الإمام النووي: مسألة فيمن قتل مظلوما فاقتص وارثه أو عفا علی الدية أو مجانا، هل على القاتل بعد ذلك مطالبة في الآخرة؟ الجواب: ظواهر الشرع تقتضي المطالبة في الآخرة اه. وكذا قال في تبيين المحارم: ظاهر بعض الأحاديث يدل على أنه لا يطالب. وقال في مختار الفتاوى: القصاص مخلص من حق الأولياء، وأما المقتول فيخاصمه يوم القيامة، فإن القصاص ما حصل فائدة للمقتول، وحقه باق عليه اه، وهو مؤيد لما استظهرته.

(5) تحفة الفقهاء (3/ 148):

 ويكون التعزير على قدر الجناية وعلى قدر مراتب الجاني، قد يكون بالتغليظ في القول، وقد يكون بالحبس، وقد يكون بالضرب.

(6) التشريع الجنائي في الإسلام (2/ 344):

534 - العفو في جرائم القصاص والدية: تجيز الشريعة للمجني عليه أو ولي دمه أن يعفو عن عقوبتي القصاص والدية دون غيرهما من العقوبات المقررة لجرائم القصاص والدية، فليس له أن يعفو عن عقوبة الكفارة، ولا يؤثر عفوه على حق ولي الأمر في تعزير الجاني بعد العفو عنه.

وليس لولي الأمر أن يعفو في جرائم القصاص والدية عن العقوبات المقدرة كالقصاص والكفارة، ولكن له أن يعفو عن أية عقوبة تعزيرية يعاقب بها الجاني، وله أن يعفو عن كل عقوبة أو بعضها.  وحق المجني عليه أو وليه في العفو مقصور؛ كحق ولي الأمر على العفو عن العقوبة فقط، وليس لأيهما العفو عن الجريمة، فإذا عفا أحدهما عن الجريمة انصرف عفوه إلى العقوبة في الحدود التي بيناها، والعلة في منع العفو عن الجريمة أنه لو سمح للمجني عليه بالعفو عن الجريمة لما أمكن معاقبة الجاني، وفي هذا خطر شديد على الجماعة؛ لأن الجريمة تمس الجماعة وإن كانت أكثر مساساً بالمجني عليه، ولو سمح لولي الأمر بالعفو عن الجريمة لأمكن تعطيل حق المجني عليه في القصاص والدية.

(7) الفقه الإسلامي وأدلته (7/ 606):

هل يبقى حق للسلطان بعد عفو ولي الدم؟ :

إذا عفا ولي القتيل مطلقاً عن القاتل عمداً، صح العفو، وبقي عند الحنفية والمالكية حق السلطان في عقوبته تعزيراً؛ لأن القصاص فيه حقان: حق الله (أو حق المجتمع أو الحق العام)، وحق المجني عليه. وحدد المالكية نوع التعزير فقالوا: إذا عفا ولي الدم عن القاتل عمداً، يبقى للسلطان حق فيه، فيجلده مئة، ويسجنه سنة.

(8) الفقه على المذاهب الأربعة (5/ 130):

لا يقال : إذا عفا أولياء الدم عن القاتل كان إطلاقه خطرا على الأمن ؟ لأنا نقول : إن ولي الدم في الغالب مصر على القصاص، وإذا فرض وعفا عنه ولكن رأی الحاكم أن إطلاقه يهدد الأمن العام له أن يعزره بما شاء، وله أن يجعله تحت المراقبة التي تحول بينه وبين العدوان حتى يتحقق من حسن سلوكه.

(9) بداية المجتهد (2/ 404):

واختلفوا في القاتل عمدا يعفى عنه هل يبقى للسلطان فيه حق أم لا؟ فقال مالك والليث: إنه يجلد مائة ويسجن سنة. وبه قال أهل المدينة، وروي ذلك عن عمر. وقالت طائفة الشافعي وأحمد وإسحاق وأبو ثور: لايجب عليه ذلك. وقال أبو ثور: إلا أن يكون يعرف بالشر، فيؤدبه الإمام على قدر ما يرى.

(10) الشرح الكبير للدردير في الفقه المالکي(4/ 287):

(وعليه) أي على القاتل عمدا البالغ إذا لم يقتل لعفو أو لزيادة حرية أو إسلام (مطلقا) كان القاتل حرا أو رقيقا مسلما أو كافرا ذكرا أو أنثى (جلد مائة وحبس سنة وإن) كان قتله العمد ملتبسا (بقتل مجوسي أو) قتل (عبده).

(11) الموسوعة الفقهية الكويتية (12/ 264-260):

10 - ينقسم التعزير إلى ما هو حق لله ، وما هو حق للعبد . والمراد بالأول غالبا : ما تعلق به نفع العامة، وما يندفع به ضرر عام عن الناس، من غير اختصاص بأحد . والتعزير هنا من حق الله ؛ لأن إخلاء البلاد من الفساد واجب مشروع ، وفيه دفع للضرر عن الأمة، وتحقيق نفع عام . ويراد بالثاني : ما تعلقت به مصلحة خاصة لأحد الأفراد ………… الخ

13 - الأصل : أنه لا يبلغ بالتعزير القتل ، وذلك لقول الله تعالى : "ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق"، وقول النبي صلی الله علیه وسلم: لایحل دم امرئ مسلم إلا بإحدی ثلاث: الثيب الزاني ، والنفس بالنفس ، والتارك لدينه المفارق للجماعة . وقد ذهب بعض الفقهاء إلى جواز القتل تعزيرا في جرائم معينة بشروط مخصوصة ، من ذلك …….وأجاز أبو حنيفة التعزير بالقتل فيما تكرر من الجرائم ، إذا كان جنسه يوجب القتل، كما يقتل من تكرر منه اللواط أو القتل بالمثقل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       23/جمادی الآخرۃ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب