86027 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
اگر شوہر غصے کی حالت میں جذباتی ہو کر کہے کہ تم میری طرف سے فارغ ہو،تو کیا یہ طلاق ہے؟
کسی اور موقعے پر پھر غصے اور جذبات میں کہے:تم میری طرف سے آزاد ہو، یعنی جو کرنا چاہتی ہو کرو،تمھیں آزادی ہے۔
مجھے میرے شوہر نے تین سال پہلے دو مرتبہ مختلف موقعوں پر کہا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو، چند مہینے پہلے کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو،تقریبا پندرہ دن پہلے کہا کہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں۔
پھر ہمیشہ ہی کہنے کے چند دن کے بعد واپس آگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور یہ کہا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا اور مجھے یاد نہیں،اب میں اس شبہ میں ہوں کہ کیا ان الفاظ سے طلاق ہو جاتی ہے؟
ایک سال پہلے باقاعدہ ایک مرتبہ سخت غصے کی حالت میں کہا کہ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔ جب میں نے بعد میں بتایا کہ آپ نے مجھے اس طرح کہا تھا تو وہ کہنے لگے:نہیں، میں نے کہا تھا کہ طلاق دے دوں گا۔
ان سب موقعوں پر میں اکیلی تھی اور یہ الفاظ میں نے ہی سنے ہیں،مگر وہ بعد میں کہہ دیتے ہیں:میں نے ایسا کچھ نہیں کہا،اس کے علاوہ جھگڑا بھی خود کرتے ہیں اورآخر میں ایسی ہی چھوڑنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں اورپھر چند دن کے بعد چاہتے ہیں کہ تعلق بنا رہے۔
ابھی بھی وہ مجھ سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں، لیکن میں پیچھے ہٹ گئی ہوں، طلاق میں بھی نہیں چاہتی تھی۔
لیکن جو الفاظ وہ کہتے چلے آرہے ہیں کیا ان سے طلاق ہو گئی ہے؟ قرآن اور سنت کی روشنی میں بتائیں۔
کیونکہ وہ مجھے تعلق قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر برا بھلا کہتے ہیں کہ تم نا فرمان ہووغیرہ وغیرہ۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں،کاروباری آدمی ہیں،حاجی اور نمازی بھی ہیں،مگر دینی احکامات کا زیادہ علم نہیں ہے،میرے ساتھ دوسری شادی کی تھی۔
برائے مہربانی جلدی جواب دے دیں،کیونکہ وہ بار بار کال کرتے ہیں اور میں نے یہ کہا ہے کہ مفتی صاحب سے فتوی لینے کے بعد ہی میں آگے بڑھ سکتی ہوں،ورنہ نہیں۔
تنقیح:پہلی مرتبہ یہ جملہ تم میری طرف سے فارغ ہو شوہر نے تین سال پہلے کہا تھا،جبکہ دوسری بار یہ جملہ اس کے کم از کم پانچ چھ ماہ بعد کہا تھا،بقیہ سب جملے اس کے بعد بولے ہیں،جبکہ سائلہ آئسہ(ایسی عورت جسے حیض نہیں آتا) ہے اور درمیان کسی بھی وقت تجدیدِ نکاح نہیں کیا گیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
"تم میری طرف سے فارغ ہو" کا تعلق کنایہ الفاظ کی اس قسم سےہے جس میں صرف طلاق بننے کی صلاحیت ہے اور قرینے کی موجودگی کی صورت میں ایسے الفاظ سے بغیر نیت کے بھی طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے لئے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑتا ہے،تجدیدِ نکاح کے بغیر صرف زبانی یا عملی طور پر رجوع کافی نہیں ہوتا۔)احسن الفتاوی(188/5:
نیز طلاق کے باب میں عورت ان الفاظ کے مطابق عمل کرنے کی مکلف ہے جو وہ اپنے کانوں سے سنے یا کسی معتمد ذریعے سے اسے معلوم ہوں،اس لئے سوال میں مذکور جملے شوہر کی زبان سے خود سننے کے بعد شوہر کا ان جملوں کے بولنے سے مکرجانا آپ کے حق میں معتبر نہیں ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جس عورت کو حیض نہیں آتا اس کی طلاق کی عدت تین مہینے شمار ہوتی ہے،لیکن اگر عدت کے دوران شوہر کسی شبہ کی بناء پر ازدواجی تعلق قائم کرلے تو اس کی وجہ سے دوسری عدت لازم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کا وقت دونوں عدتوں کی طرف سے شمار ہوتا ہے،لیکن عدت طلاق گزرنے کے بعد ازدواجی تعلق کے قیام کی وجہ سے لازم ہونے والی عدت کے دورانیہ میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لہذا مذکورہ صورت میں پہلی بار جب آپ کے شوہر نے غصے کی حالت میں آپ سے یہ جملہ"تم میری طرف سے فارغ ہو" بولا تھا تواس کے ذریعے ایک بائن طلاق واقع ہوگئی تھی اور چونکہ اس کے بعد نکاح کی تجدید نہیں کی گئی،اس لئے اس کے بعد بولے جانے والے طلاق کے بقیہ کنائی جملوں سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،جبکہ طلاق کےصریح جملے سے بھی عدت گزرجانے کی وجہ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
اس لیے اگر آپ دونوں دوبارہ میاں بیوی بن کر اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا اور نکاح ختم ہونے کے باوجود اتنا طویل عرصہ اکٹھا رہنے پر اور باربار ازدواجی تعلق قائم کرنے آپ دونوں کے ذمے سچے دل اور ندامت کے ساتھ کثرت سےتوبہ و استغفار لازم ہے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 301):
"(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو؛ لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية؛ لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ": (قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب......
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية".
الدر المختار للحصفكي (3/ 346)
وألفاظ التفويض ثلاثة: تخيير، وأمر بيد، ومشيئة.
(قال لها: اختاري أو أمرك بيدك ينوي) تفويض (الطلاق)؛ لانها كناية فلا يعملان بلا نية.
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" ( قوله: لأنهما كناية ) أي من كنايات التفويض. شرنبلالية.
( قوله :فلا يعملان بلا نية ) أي قضاء وديانة في حالة الرضا ، أما في حالة الغضب أو المذاكرة فلا يصدق قضاء في أنه لم ينو الطلاق لأنهما مما تمحض للجواب كما مر ولا يسعها المقام معه إلا بنكاح مستقبل ؛لأنها كالقاضي ، أفاده في الفتح والبحر" .
"رد المحتار" (3/ 230):
"(قوله: ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة".
"رد المحتار" (3/ 518):
" وفي البزازية: طلقها ثلاثا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكرا طلاقها لا تنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال ثم وطئها في العدة عالما بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لا يقع فيها طلاق آخر ولا تجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر".
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني" (3/ 464):
"وإذا طلق امرأته ثلاثاً، فلما اعتدت بحيضتين أكرهها على الجماع، إن كان ينكر أنه طلقها تستقبل العدة، وإن كان مقرّاً بطلاقها مع هذا جامعها على وجه الزنا لا تستقبل العدة. وكذلك من طلق امرأته ثلاثاً ثم أقام معها زماناً، إن أقام منكراً طلاقها لا تنقضي عدتها، كذا حكي جواب المشايخ وجوباً لهما. وإن أقام مقرّاً بطلاقها انقضت عدتها.
ولو وطئها وادعى الشبهة بأن قال: ظننت أنها تحلُّ لي، فإنها تستقبل العدة بكل وطئةٍ وتداخل مع الأولى؛ لأنه لا تنقضي الأولى. فإذا انقضت الأولى وبقيت الثانية أو الثالثة فإنها لا تستحق النفقة في هذه الحالة؛ لأن هذه عدة الوطء لا عدة النكاح، والمرأة لا تستحق النفقة في عدة الوطء، وإن كان الطلاق بائناً واحداً أو اثنتين، ثم وطئها في العدة من غير دعوى الشبهة، ومع العلم بالحرمة تستأنف العدة، وذكر في «مجموع النوازل» أنها لا تستأنف العدة، والأول أصح.....
وإذا انقضت الأولى بقيت الثانية أو الثالثة كانت الثانية أو الثالثة عدة الوطء حتى لو طلقها الزوج في هذه الحالة لا يقع طلاق آخر. فالأصل أن المعتدة بعدة الطلاق يلحقها الطلاق، والمعتدة بعدة الوطء لا يلحقها الطلاق".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
25/جمادی الثانیہ1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |