86077 | نکاح کا بیان | حرمت مصاہرت کے احکام |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوئی کہ میں نے اپنی بہو کو دو مختلف اوقات میں اپنے کندھے سے لگا کر ہاتھ، گال، ماتھے، بلکہ سر پر بھی پیار کیا۔ لیکن میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلفاً یہ کہتا ہوں کہ میرے دل میں کوئی برائی نہیں تھی، نہ ہی میں نے اپنے جسم میں کسی قسم کی شہوت یا تحریک محسوس کی، بلکہ اپنی بیٹی سمجھ کر اس کو پیار کیا، جیسے میں اپنی بیٹیوں کو کرتا ہوں۔ کیونکہ ہمارے خاندان میں یہ عام رواج ہے کہ پھوپی اپنے بھتیجے کو، خالہ اپنی بھانجی کو، باپ اپنی جوان بیٹیوں کو، اور بھائی بہنوں کو گلے بھی لگاتے ہیں اور پیار کرتے ہیں چہرے وغیرہ پر۔ اسی طرح میں نے بھی اپنی بہو کو ایسا کیا۔
میری بہو کا بھی یہی بیان ہے کہ میرے سسر نے مجھے مذکورہ بیان کے مطابق پیار کیا، اور اس پیار کے دوران مجھے بھی کسی قسم کی شہوت یا گرمی محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ مفتی صاحب، ایک بات یہ بھی عرض کر دوں کہ میری عمر اس وقت تقریباً ستّر برس ہے، اور میں ایک عرصے سے شوگر کا مریض ہوں، اور اندر سے ڈھانچہ ہو چکا ہوں۔ مجھے اب شہوت آنے کی صلاحیت بھی نہیں رہی۔
میرا بیٹا ہمارے اقرار کی وجہ سے ہماری اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ میں نے اپنی بہو کو پیار کیا ہے، ورنہ اس نے ہمیں دیکھا نہیں، کیونکہ میرا یہ عمل تنہائی میں ہوا ہے اور ہم اس مسئلے سے بھی ناواقف تھے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ:
1۔کیا اس صورت میں بھی میرے بیٹے اور بہو کے درمیان حرمتِ مصاہرت واقع ہوئی؟
2۔اگر حرمتِ مصاہرت واقع ہوئی تو کیا ایسی کوئی صورت ممکن ہے کہ عدت کے بعد دوبارہ نکاح کر لیں؟
3۔میرے بیٹے کے دو بیٹے (تین سال اور چھ سال کے) اور ایک بیٹی (جو ابھی ایک سال کی ہے اور ماں کا دودھ پیتی ہے) ہیں۔ حرمتِ مصاہرت واقع ہونے کی صورت میں ان کے کیا احکام ہوں گے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1۔گال پربوسہ دینا چونکہ شہوت کی علامت ہے، اس لیے عمومی حالات میں فقہاء کرام نے اس میں حرمت مصاہرت ثابت ہونے حکم لکھا ہے الا یہ ہے کہ کوئی دلیل عدم ِشہوت پردلالت کرے۔
مسئولہ صورت میں سسرکی عمر(60سال)شوگراورجانبین کی عدمِ شہوت کی تصدیق،علاقے کا عام رواج اورخاوند
کی تصدیق ایسے قرائن اورعلامات ہیں جن کی بناء پر مذکورہ صورت میں عدمِ شہوت کاغالب گمان ہوتاہے،اس بناء پرمسئولہ صورت میں اگرواقعةً شہوت جانبین سے نہ تھی جیسے کہ لکھاگیاہے اورخاوند بھی اس کی تصدیق کررہاہوتوان خصوصی حالات کے پیشِ نظرحرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی اوربہوبیٹے پر حرام نہیں ہوگی۔تاہم سسراوربہوپر لازم ہے کہ آئندہ اس طرح کی حرکات سے مکمل اجتناب کریں اورعلاقے کےرسم ورواج کے بجائےشرعی حدود کی مکمل رعایت رکھیں ۔
2۔ مسئولہ صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوئی، اور اگر ثابت ہوتی تو وہ ہمیشہ کے لیے ہوتی۔ اس کے بعد نکاح جائز نہ ہوتا، نہ عدت میں اور نہ ہی عدت کے بعد۔
3۔ حرمت ثابت نہیں ہوئی، لہٰذا یہ بچے بدستور والدین کے پاس رہیں گے۔ اگر حرمت ثابت ہوجاتی تو بچے سات سال کی عمر تک اور بچی راجح قول کے مطابق بلوغت تک ماں کے پاس رہتی، اور اس کے بعد والد کے پاس چلی جاتی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 35(
")قوله: قبل أم امرأته إلخ) قال في الذخيرة، وإذا قبلها أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال لم يكن عن شهوة ذكر الصدر الشهيد أنه في القبلة يفتى بالحرمة، ما لم يتبين أنه بلا شهوة وفي المس والنظر لا إلا إن تبين أنه بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر."
البحرالرائق :
وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ظنه صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك." (8/44)
فی الھندیۃ :
رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة و هي مكرهة و أنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج ، و إن صدقه الزوج و قعت الفرقة و يجب المهر على الزوج و يرجع بذلك على الذي فعل إن تعمد الفاعل الفساد و إن لم يتعمد لا يرجع الخ ۔ (کتاب النکاح ، القسم الثانی ، المحرمات بالصھریۃ و مایقبل بذٰلک( ج،1 ص ، 276 ، ط۔ رشیدیہ)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 107)
"فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقةً تصل الحرارة معها كما قدمناه، وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة .....وأطلق في اشتراط الشهوة في اللمس فأفاد أنه لا فرق بين التقبيل على الفم وبين غيره وفي الجوهرة لو مس أو قبل وقال لم أشته صدق إلا إذا كان اللمس على الفرج والتقبيل في الفم اهـ.ورجحه في فتح القدير قال إلا أنه يتراءى على هذا أن الخد ملحق بالفم وفي الولوالجية إذا قبل أم امرأته أو امرأة أجنبية يفتى بالحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة؛ لأن الأصل في التقبيل هو الشهوة بخلاف المس اهـ.وكذا في الذخيرة إلا أنه قال: وظاهر ما أطلق في بيوع العيون يدل على أنه يصدق في القبلة سواء كانت على الفم أو على موضع آخر اهـ.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 65):
"وكذلك إذا قبلها ثم قال: لم تكن عن شهوة، أو لمسها أو نظر إلى فرجها (وقال) : لم يكن عن شهوة فقد ذكر الصدر الشهيد رحمة الله: أن في القبلة يفتى ثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبّل بغير شهوة، وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة، إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة، بخلاف المس والنظر.
الفتاوى الهندية (1/ 276)
وإذا قبلها ثم قال: لم يكن عن شهوة أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال: لم يكن بشهوة فقد ذكر الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - في التقبيل يفتى بثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر، كذا في المحيط.
وفي الهداية (٢/٤٣٨)
وإذا وقعت الفرقة ين الزوجين فالأم أحق بالولد...... والنفقة على الأب.....والأم والجدة أحق بالغلام حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده ويستنجي وحده وفي الجامع الصغيرحتى يستغني......والخصاف رحمه الله قدر الاستغناء بسبع سنين اعتبارا للغالب والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 566)
(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
30/6/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |