03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
89 یا 90 سال بعد کسی کی زمین پر ملکیت کا دعوی کرنا
85325دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک پیش امام مسمی مولانا عبد الستار صاحب مرحوم کو1935ء میں بد در نواب  صاحب اور علاقے میں موجودقوم خوانین اور قوم اخونخیل کےدیگر سربراہان  نےان کے درمیان مشترکہ قبائلی زمین میں سے کچھ زمین بطور معاوضۂ امامت مالکانہ تصرفات کےساتھ حوالہ کیا، پیش امام صاحب نے مذکورہ زمین پر اپنی سکونت کیےلیے بذات خود ایک مکان تعمیر کیا، جس میں وہ سکونت پذیر تھااور اس پر ہرقسم مالکانہ تصرفات کرتے چلے آرہے تھے۔ 1974 میں امام وفات پاگئے، ان کی  وفات کے بعد ان کے ورثہ  میں مولا نا نصر الدین مولا نا فلاح الدین، مولانا قیام الدین ودیگربرادران اوران کے خاندان میں شامل دیگر بیس پچیس علماء کرام و حفاظ موجود ہیں،  جواسی جامع مسجد کے علاوہ گاؤں بیبیوڑ کی تین اورمساجد کی نگرانی اور امامت کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اوروہ ان کےوالد صاحب مولانا عبد الستار صاحب کو ملی ہوئی مذکورہ زمین کے علاوہ کسی قسم کامعاوضہ قوم سے نہیں لیتے، بلکہ ان میں اکثرسرکاری نوکریاں کررہے ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعدان کے ورثہ مذکورہ زمین پر مالکانہ تصرفات کرتےچلےآ رہے ہیں، مثلاً: والد صاحب کے تعمیرکردہ مکان کوبوسیدہ ہونے کی وجہ سے مسمار کیا اور اس جگہ پر اپنے لیے مکان تعمیر کیا۔ وقت گزرنے کی وجہ سے یہ مکان بھی قابل استعمال نہیں رہا۔ اس کے بعد اس جگہ پر دو نئے مکانات تعمیر کیے ۔ جو ابھی تک موجود ہیں اور ان میں ان کے کسان رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ زمین کے پانی کے بارے میں ایک تنازعہ مسمی غلام ولد حضرت ولی بنام مولانا نصر الدین، مولا نا فلاح الدین نے ایک درخواست دائر کی،  اس پر تقریباً 20 سال  تک عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا، آخر کار مدعی اور مدعی علیہم کے درمیان ایک فیصلہ ہوا۔  اس کے بعد مولانا فلاح الدین وغیرہ نے بمقدار 3 ہزارفٹ ایک نالی تعمیر کی اور اس پر کثیر رقم خرچ کی۔ سال 1982 میں قوم خوانین کے کچھ لوگوں نے ان علماء کرام کے خلاف اس زمین پر دعوی کیا۔ اور یہ مقدمہ تقریباً 7 سال مختلف عدالتوں میں چل رہا تھا اور مختلف عدالتوں میں ان کا دعوی زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج کیا گیا اور فیصلہ مدعی علیہم کے حق میں صادر ہوا،  جس کے دستاویزات موجود ہیں اور اس پر کافی اخراجات  بھی آئے۔ اس کے علاوہ مذکورہ زمین کا اکثر حصہ غیر آباد تھا،  ان علماء کرام نے اس پر کافی رقم خرچ کی اور زمین کو قابل کاشت بنایا، آخر کار علماء کرام نے اپنے درمیان اس کو تقسیم کی اور ہر ایک بھائی اپنے حصے پرسکونت پذیر ہوئے۔ اب چونکہ قوم خوانین کےکچھ لوگ تقریباً 89، 90 سال بعد اس زمین پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا ان علماء کرام کامالکانہ تصرفات کے بعد مذکورہ زمین ان کی ملکیت ہے یا نہیں؟ کیا عدالتی فیصلوں کے بعد اس پر شریعت سے فیصلہ کروانا جائز ہے یا نہیں؟ 89، 90 سال بعد دعوی زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے ان کا دعویٰ بھی صحیح ہے یا نہیں ؟ دلائل کی روشنی میں جواب دیا جائے۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ  امام مولانا  عبد الستار صاحب  مرحوم کا تعلق کسی تیسری قوم فائندہ خیل سے تھا۔ جس مسجد میں وہ  پیش امام تھے، اس وقت پورے علاقےمیں پورے یونین کونسل کے سطح پر یہی ایک ہی مسجد تھی،  سارے لوگ یہی نماز پڑھنے کےلیےآتے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک پیش امام مسمی مولانا عبد الستار صاحب مرحوم کو1935ء میں بد در نواب  صاحب اور علاقے میں موجودقوم خوانین اور قوم اخونخیل کےدیگر سربراہان  نےان کے درمیان مشترکہ قبائلی زمین میں سے کچھ زمین بطور معاوضۂ امامت مالکانہ تصرفات کےساتھ حوالہ کیا، پیش امام صاحب نے مذکورہ زمین پر اپنی سکونت کیےلیے بذات خود ایک مکان تعمیر کیا، جس میں وہ سکونت پذیر تھااور اس پر ہرقسم مالکانہ تصرفات کرتے چلے آرہے تھے۔ 1974 میں امام وفات پاگئے، ان کی  وفات کے بعد ان کے ورثہ  میں مولا نا نصر الدین مولا نا فلاح الدین، مولانا قیام الدین ودیگربرادران اوران کے خاندان میں شامل دیگر بیس پچیس علماء کرام و حفاظ موجود ہیں،  جواسی جامع مسجد کے علاوہ گاؤں بیبیوڑ کی تین اورمساجد کی نگرانی اور امامت کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اوروہ ان کےوالد صاحب مولانا عبد الستار صاحب کو ملی ہوئی مذکورہ زمین کے علاوہ کسی قسم کامعاوضہ قوم سے نہیں لیتے، بلکہ ان میں اکثرسرکاری نوکریاں کررہے ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعدان کے ورثہ مذکورہ زمین پر مالکانہ تصرفات کرتےچلےآ رہے ہیں، مثلاً: والد صاحب کے تعمیرکردہ مکان کوبوسیدہ ہونے کی وجہ سے مسمار کیا اور اس جگہ پر اپنے لیے مکان تعمیر کیا۔ وقت گزرنے کی وجہ سے یہ مکان بھی قابل استعمال نہیں رہا۔ اس کے بعد اس جگہ پر دو نئے مکانات تعمیر کیے ۔ جو ابھی تک موجود ہیں اور ان میں ان کے کسان رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ زمین کے پانی کے بارے میں ایک تنازعہ مسمی غلام ولد حضرت ولی بنام مولانا نصر الدین، مولا نا فلاح الدین نے ایک درخواست دائر کی،  اس پر تقریباً 20 سال  تک عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا، آخر کار مدعی اور مدعی علیہم کے درمیان ایک فیصلہ ہوا۔  اس کے بعد مولانا فلاح الدین وغیرہ نے بمقدار 3 ہزارفٹ ایک نالی تعمیر کی اور اس پر کثیر رقم خرچ کی۔ سال 1982 میں قوم خوانین کے کچھ لوگوں نے ان علماء کرام کے خلاف اس زمین پر دعوی کیا۔ اور یہ مقدمہ تقریباً 7 سال مختلف عدالتوں میں چل رہا تھا اور مختلف عدالتوں میں ان کا دعوی زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج کیا گیا اور فیصلہ مدعی علیہم کے حق میں صادر ہوا،  جس کے دستاویزات موجود ہیں اور اس پر کافی اخراجات  بھی آئے۔ اس کے علاوہ مذکورہ زمین کا اکثر حصہ غیر آباد تھا،  ان علماء کرام نے اس پر کافی رقم خرچ کی اور زمین کو قابل کاشت بنایا، آخر کار علماء کرام نے اپنے درمیان اس کو تقسیم کی اور ہر ایک بھائی اپنے حصے پرسکونت پذیر ہوئے۔ اب چونکہ قوم خوانین کےکچھ لوگ تقریباً 89، 90 سال بعد اس زمین پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا ان علماء کرام کامالکانہ تصرفات کے بعد مذکورہ زمین ان کی ملکیت ہے یا نہیں؟ کیا عدالتی فیصلوں کے بعد اس پر شریعت سے فیصلہ کروانا جائز ہے یا نہیں؟ 89، 90 سال بعد دعوی زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے ان کا دعویٰ بھی صحیح ہے یا نہیں ؟ دلائل کی روشنی میں جواب دیا جائے۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ  امام مولانا  عبد الستار صاحب  مرحوم کا تعلق کسی تیسری قوم فائندہ خیل سے تھا۔ جس مسجد میں وہ  پیش امام تھے، اس وقت پورے علاقےمیں پورے یونین کونسل کے سطح پر یہی ایک ہی مسجد تھی،  سارے لوگ یہی نماز پڑھنے کےلیےآتے تھے۔

حوالہ جات

قال العلامة أبو الحسن المرغيناني رحمه الله تعالى: قال: "الأجرة لا تجب بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة: إما بشرط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط، أو باستيفاء المعقود عليه". (الهداية : 3/ 231)

وأخرج  الإمام البخاري رحمه الله تعالى  من حديث سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌من ‌أخذ ‌شبرا ‌من ‌الأرض ‌ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين». (صحيح البخاري:  4/ 107: 3198)

وأخرج  الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله تعالى من حديث أبي حميد الساعدي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم». (مسند أحمد : 39/ 19: 23605)

وقال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: ‌القضاء ‌مظهر ‌لا ‌مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة حتى لو أمر السلطان بعد سماع الدعوى بعد خمسة عشر سنة فسمعها لم ينفذ. قلت: فلا تسمع الآن بعدها إلا بأمر إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي وبه أفتى المفتي أبو السعود فليحفظ.(الدر المختار: 5/419)

وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: قوله: (فلا تسمع الآن بعدها) أي لنهي السلطان عن سماعها بعدها فقد قال السيد الحموي في حاشية الأشباه: أخبرني أستاذي شيخ الإسلام يحيى أفندي الشهير بالمنقاري أن السلاطين الآن يأمرون قضاتهم في جميع ولاتهم أن لا يسمعوا دعوى بعد مضي خمس عشرة سنة سوى الوقف والإرث. اهـ. ونقل في الحامدية فتاوى من المذاهب الأربعة بعدم سماعها بعد النهي المذكور. (رد المحتار: 5/ 419)

وقال  رحمه الله تعالى أيضًا: الأول: قد استفيد من كلام الشارح أن عدم سماع الدعوى بعد هذه المدة إنما هو للنهي عنه من السلطان فيكون القاضي معزولا عن سماعها لما علمت من أن القضاء يتخصص؛ فلذا قال إلا بأمر أي فإذا أمر بسماعها بعد هذه المدة تسمع، وسبب النهي قطع الحيل والتزوير، فلا ينافي ما في الأشباه وغيرها من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان اهـ؛ ولذا قال في الأشباه أيضا: ويجب عليه سماعها اهـ: أي ‌يجب ‌على ‌السلطان الذي نهى قضاته عن سماع الدعوى بعد هذه المدة أن يسمعها بنفسه، أو يأمر بسماعها، كي لا يضيع حق المدعي، والظاهر أن هذا حيث لم يظهر من المدعي أمارة التزوير، وفي بعض نسخ الأشباه: ويجب عليه عدم سماعها وعليه فالضمير يعود للقاضي المنهي عن سماعها، لكن الأول هو المذكور في معين المفتي. (رد المحتار: 5/ 420)

راز محمد

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

3 جمادی الاولی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رازمحمدولداخترمحمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب