86092 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید اور عمرو نے مشترکہ طور پر ایک گاڑی خریدی ،جس میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔زید چونکہ ڈرائیور بھی ہے اس لیے دونوں نے باہمی رضامندی سے یہ طے کیا کہ زید یہ گاڑی چلائے گا اور اسے طے شدہ تنخواہ ملے گی اور باقی کا نفع دونوں میں آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔کیا شریک کا اس طرح مستقل تنخواہ لینا شرعاً درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں زید اور عمرو کی یہ شرکت شرکت ملک ہے۔ شرکت ملک میں کسی شریک کا شرکت کے لیے کام کرنے کی صورت میں تنخواہ لینا شرعاً درست ہے۔تا ہم تنخواہ پر رکھنے کا یہ عقد شرکت سے بالکل الگ ہوگا۔شریک کام کرنے پر بہر حال تنخواہ کا حق دار ہوگا،چاہے نفع ہو یا نہ ہو۔نیز اس تنخواہ کی وجہ سے طے شدہ نفع میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ تعالی:ومن استأجر رجلا لحمل طعام مشترك بينهما لا يجب الأجر؛ لأنه ما من جزء يحمله إلا وهو عامل لنفسه فيه فلا يتحقق تسليم المعقود عليه.
وقال العلامۃ بدر الدین العینی رحمہ اللہ تعالی:قيل: هاهنا نظر أن :الأول في قوله حيث لا يجب الأجر كيف يقول لا يجب؛لأنه قد وجب وقبض وهو نصف الطعام، ثم يقول لأن المستأجر ملك الأجر.
والثاني في قوله:لأن ما من جزء يحمله إلا وهو عامل لنفسه نظر، فإن هذا ممنوع...ولكن الحق أن الجزء الذي لشريكه ليس هو عاملا لنفسه فيه بل لشريكه، فهو في الحقيقة عامل لنفسه وعامل لشريكه، فأخذه الأجرة في مقابلة عمله لشريكه.(البناية :10/ 299)
وقال العلامۃ بدر الدین العینی رحمہ اللہ تعالی أیضاً: (فصار كما إذا استأجر دارا مشتركة بينه وبين غيره ليضع فيها الطعام أو عبدا مشتركا ليخيط له الثياب) حيث يجب الأجر.( البناية :10/ 306)
وقال العلامۃ قاضی زادہ رحمہ اللہ تعالی:أقول: في الجواب نظر، وهو أن عدم كون حمل الكل معقودا عليه لا يجدي شيئا في دفع السؤال؛ لأن حاصل السؤال أن حمل الطعام واقع على معين قطعا فكان موجودا، وحمل الكل لا يتصور بدون حمل كل جزء منه ،فقد استلزم وجود حمل الكل وجود حمل كل جزء منه لا محالة، ومن جملة الأجزاء نصيب المستأجر فلا بد أن يجب الأجر لحمل ذلك الجزء الذي هو المعقود عليه، ولا شك أن عدم كون الكل معقودا عليه لا يفيد شيئا في دفع ذلك، وإنما يكون مفيدا لو كان المقصود من السؤال وجوب الأجر بحمل الكل وليس فليس.(تكملة فتح القدير:9/ 116)
وفی المعاییرالشرعیۃ:یجوزتکلیف أحد الشرکاء بالمھمات المذکورۃ۔۔۔بعقد منفصل عن عقد الشرکۃ بحیث یمکن عزلہ دون أن یترتب علی ذلك تعدیل عقد الشرکۃ أو فسخہ،و حینئذ یجوز تخصیص أجر محدد.
(المعاییرالشرعیۃ ،رقم (12):ص،254)(احسن الفتاوی:321/7)
جنید صلاح الدین
دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
27/جمادی الثانیہ6144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |