03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حدیث کا انکار کرنے والے شخص کا شرعی حکم
86172ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

زید اور عمرو کسی مسئلہ میں بحث کر رہے تھےجس میں زید نے ایک مسئلے پر ایک روایت حدیث پیش کی اور پھر عمرو کو کہاکہ کیا آپ حدیث نہیں مانتے جس پر عمرو نے کہا کہ نہیں ،لیکن پھر تھوڑی دیر بعد عمرو نے کہا کہ کیو ں نہیں میں احادیث کو مانتا ہوں ۔اب عمرو کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص احادیثِ مبارکہ کا مطلقاً انکار کرتا ہے اور اس کی حجیت کو نہیں مانتا تو ایسے شخص کے کفر میں شبہ نہیں۔ اور جو بلاتاویل  کسی خاص حدیث کا انکار کرے جسے جمہورِ اہلِ سنت نے قبول کیا ہو تو وہ گمراہ ہے۔ البتہ کسی دوسرے نص کی بنیاد پر یا اس کے نزدیک حدیث صحیح سند سے ثابت نہ ہونے کی بنا پر انکار کرتاہو، یا کوئی معتبر تاویل کرتاہو(جیساکہ بعض ائمہ مجتہدین کاطرزِ عمل ہے)  اور اس کا مقصد نفسانی خواہش نہ ہو تو اس میں حرج نہیں۔

صورت مسئولہ سے  بظاہر یہ  معلوم ہوتا ہے عمرو حدیث کو مانتا ہے، بحث  مباحثے میں بغیر سوچے سمجھےایسے الفاظ بولے ہیں جس کا قرینہ انہی کے الفاظ ''کیوں نہیں میں احادیث کو مانتا ہوں''ہے۔  مگر ایسے الفاظ پر جری ہونا خطرناک ہو گا، آئندہ ایسے الفاظ کہنے سے سخت گریز کرےاورابھی کے کیےپر توبہ و استغفار کرے۔

حوالہ جات

شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے انکار کی مختلف صورتوں کا حکم تفصیل سےبیان فرمایا ہے:

اس مسئلہ   میں چند احتمالات ہیں:

اول یہ کہ تمام حدیثوں کا انکار کرے یہ بعینہ کفر ہے۔

دوسرے یہ کہ حدیثِ متواتر کا انکار کرے اور اس میں کوئی تاویل نہ  کرے، یہ بھی کفر ہے۔

تیسرے یہ کہ صحیح احادیث میں سے  ''آحاد '' کا انکار کرے اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے ہو، اس وجہ سے کہ وہ حدیث طبیعت کے موافق نہ ہو، یا دنیوی مصلحت کے خلاف ہو یہ گناہِ کبیرہ ہے، ایسا  منکر بدعتی ہے، یعنی بدعتِ سیئہ کرتا ہے۔

چوتھے یہ کہ اس وجہ سے حدیث کا انکار کرے کہ اس کے خلاف کوئی دوسری حدیث قوی تر ہو یا یہ کہ ناقل کے قول پر اس کو اعتماد نہ ہو اس وجہ سے وہ شخص یہ سمجھتا ہو کہ فی الواقع یہ حدیث نہیں ہے اور اس خیال سے اس کو اس حدیث سے انکار ہو اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے نہ ہواور نہ کسی دنیوی غرض سے ہو اور اپنے کلام کی سر سبزی بھی منظور نہ ہو اور نہ کوئی دوسری غرض فاسدہ مقصود ہو، بلکہ اس وجہ سے اس کو انکار ہو کہ وہ حدیث اس کے گمان میں علمِ اصولِ حدیث کے قواعد کے خلاف ہو یا کسی آیتِ قرآنی کے خلاف ہو یا ایسی ہی کوئی اور مناسب وجہ انکار کی اس کے نزدیک ہو تو ایسے انکار میں کچھ حرج نہیں۔(فتاوی عزیزی:1/441)

محمد اسماعیل بن نجیب الرحمان

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۳رجب ۱۴۴۶ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسماعیل ولد نجیب الرحمان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب