86184 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
محترم مفتی صاحب، السلام علیکم!
میں نے اپنے دوست کے ساتھ آدھے آدھے پیسوں سے ایک گاڑی خریدی اور کرایہ پر کمپنی کو دی ہے۔ کرایہ ہم برابر تقسیم کریں گے۔ موبل آئل کمپنی بدلوائے گی، جبکہ ٹائر ہم بدلیں گے۔ ایکسیڈنٹ کی صورت میں تعدی (غلطی) کرنے والا خرچ برداشت کرے گا۔ معاہدے کے اختتام پر گاڑی بیچ کر نفع و نقصان ہم آپس میں تقسیم کریں گے۔ براہ کرم بتائیں، کیا یہ کاروبار اور کرایہ کی تقسیم شرعاً جائز ہے؟ جزاکم اللہ خیراً!
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مذکورہ میں آپ کاشریک کے ساتھ عقد شرکت اور اس کے بعد آپ دونوں کا کمپنی کےساتھ عقد اجارہ شرعاً درست ہے، کیونکہ عقد اجارہ میں جوشرط ہے مقتضاء عقد کے موافق ہونے کی وجہ سے عقد میں شرعاً کوئی خرابی لازم نہیں آئی ،لہذا آپ اپنے شریک کے ساتھ کرایہ معاہدے کے مطابق تقسیم کر سکتے ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامةا لسرخسي رحمه الله تعالى: (ثم) الشركة نوعان: شركة الملك وشركة العقد. (فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك، وكل واحد منهما بمنزلة الأجنبي في التصرف في نصيب صاحبه.(المبسوط للسرخسی: 151/11)
قال العلامةا بن عابدین رحمه الله تعالى: في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز.وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اهـ.قال الحموي: أي فيصح اشتراطه.واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلا شرط ومنه بشرط اهـ.أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز تأمل. (رد المحتار: 6/47)
قال العلامۃعلي أفندي رحمہ اللہ: يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف وشدة هلكت لزمه ضمان قيمتها).درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: 1/ 697)
محمد مجاہد
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
/3رجب المرجب،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مجاہد بن شیر حسن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |