86169 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
عبد الحق فوت ہو گیا، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے،نہ بیٹانہ بیٹی ہے،بیوی اس سےپہلےفوت ہوگئی ہے۔
ورثہ میں :ایک بھائی، 3 بہنیں ،دوبھتیجےدوبھتیجیاں ہیں ،ان میں میراث کیسےتقسیم ہوگی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے پہلے تجہیز وتکفین کامعتدل خرچہ (اگركسی وارث نے یہ خرچہ بطورتبرع نہ کیا ہو (اداکیاجائےگا،پھر مرحوم کاقرضہ اداکیاجائےگا،پھر اگرمرحوم نے کسی غیروارث کے لئےکوئی جائزوصیت کی ہےتوترکہ کےایک تہائی تک اس کواداکیاجائے،اس کےبعدجوکچھ بچ جائے،اس کومرحوم کےانتقال کےوقت موجودورثہ (ایک بھائی اورتین بہنوں) میں تقسیم کیاجائےگا۔
چونکہ مرحوم کےبھائی موجودہیں ،لہذا مرحوم کےبھتیجےاوربھتیجیاں میراث سےمحروم ہونگی ۔
تقسیم کاطریقہ یہ ہوگاکہ مرحوم کی کل میراث میں سےبھائی کودوحصےدیےجائیں گےاور تینوں بہنوں میں سےہرایک کو ایک ایک حصہ دیاجائےگا۔
فیصدی اعتبارسےتقسیم کیاجائےتو کل میراث کا 40%فیصدمرحوم کےبھائی کوملےگا،اورتینوں بہنوں میں سےہرایک کو 20%ملےگا۔
حوالہ جات
"السراجی فی المیراث "5،6 : الحقوق المتعلقہ بترکۃ المیت :قال علماؤنارحمہم اللہ تعالی تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول یبدأبتکفینہ وتجہیزہ من غیرتبذیرولاتقتیر،ثم تقصی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذوصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ ۔
قال اللہ تعالی فی سورۃ النساء:یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین۔
"رد المحتار" 29 / 401:ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده ( ويقدم الأقرب فالأقرب منهم ) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت ( كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت ) بأكثر ( عصبة وذا سهم ) كما مر۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
3/رجب 1446ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |