03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹیلی گرافک ٹرانسفر T.T) )اور ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوانے کا حکم
86209خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

  1. غیر قانونی حوالہ  یعنی ہنڈی کے   کاروبار کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟
  2. ہمارا کارو بار باہر ممالک کے ساتھ ہے،جیسے چائنا،جاپان اور دبئی کے ساتھ،تو ہمیںT.T (telegraphic transfer ) کی ضرورت  ہوتی ہے ،یعنی currency exchange  جیسے ہم یہاں کسی  کو پیسے دیتے ہیں اور وہ ہماری کمپنی والے کو چائنا یا جاپان میں  اس کرنسی کے ساتھ دی ہوئی  رقم حوالہ کردیتا ہے  اور کبھی کبھار ہمیں جب حوالہ کرنا ہو جیسے پاکستان میں کوئی حوالہ  والا ہو ،تو ہمارے پیسے ہمیشہ ایڈوانس میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ ان کا  کاروبار اسی طرح کیش میں چلتا ہے ، لیکن کبھی ہم قرض کا سودا کر لیتے ہے،مثلا  50 لاکھ یا ایک کڑور کا ، یعنی وہ ہماری T،T کر لیتا ہے اور ہم ایک ہفتے بعد اس کی رقم اس کو دیتے ہیں،کیونکہ ہمارے پاس کیش ہر وقت موجود نہیں ہوتا۔تو کیا اس طرح کا قرض جائز ہے یا نہیں ؟  میں نے سنا ہے کہ قبضہ کرنا حوالہ میں ضروری ہے، تو اب یہ قبضہ کس طرح کا ہونا چاہیے حوالے والے کے ساتھ ، یا کمپنی کے ساتھ ، اس قبضے کا جائز اور صحیح طریقہ بتاؤ ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1.واضح رہے عام طور پر ہنڈی کے ذریعہ رقم بھیجنا قانونی طور پر ممنوع ہوتا ہے، اس صورت میں اس کا کاروبار کرنا شرعا جائز نہیں ۔اس کے باوجود بھی  کوئی یہ معاملہ کرلےتو  قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا ،باقی معاملہ اگر شرائط کے ساتھ کیا جائے تو فی نفسہ درست رہے گا،یعنی کمائی حرام نہیں  ہوگی۔

دیگر شرائط درج ذیل ہیں:

 دوسرے  ملک  کی کرنسی کی موجودہ بازاری قیمت سے تبادلہ کیاجائے ،قیمت اس سے کم  یا زیادہ طے کرنا درست نہیں  ۔

کم ازکم کسی  ایک کرنسی پرمجلس عقد میں قبضہ ہو،یعنی اگردبئی  میں  درہم لے کرپاکستان میں،پاکستانی روپے  ادا  کرنا  چاہتا ہے تو  پہلےمجلس عقد میں درہم پر قبضہ  کرلے ۔

مذکورہ  بالا شرائط  کا اگر  لحاظ نہ رکھا  گیا توکمائی ناجائز  گی۔ 

 

2. اگر آپ کے پاس ہر وقت کیش موجود نہیں ہوتا ہے ،تو   ٹی ٹی کرنے والوں سے قرض لینے کی درج ذیل تفصیل ہے:

فی الجملہ آپ کسی سے بھی قرض لے سکتے ہیں بشرطیکہ اس قرض میں سود کا کوئی عنصر شامل نہ ہو۔

لیکن صورت مسؤلہ میں ٹی ٹی کرنے والوں سے صرف قرض کی درخواست نہیں کی جاتی بلکہ اس میں کرنسی ایکسچینج کا عقد بھی شامل ہوتا ہے۔کرنسی ایکسچینج کے معاملے میں شرعی طورپرکسی ایک طرف سے مجلس عقد میں قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں آپ کے لیے ٹی ٹی والوں سے قرض کا مطالبہ کرنا اس شرط کے ساتھ جائز ہوسکتا ہےکہ آپ اسی مجلس میں کمپنی والوں کو فون کے ذریعے مجلس میں شریک کرلیں اس صورت میں بینک کا پروسیسنگ کا اور پیسے ٹرانسفر کے لیے جتنا وقت درکار ہوتا ہے اتنی تاخیر کی گنجائش ہوسکتی ہے۔

حوالہ جات

قال شیخ الإسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتھم العالیہ: أماتبادل  العملات  المختلفة  الجنس  مثل الربیہ الباکستانیہ  بالریا ل  السعودی ، فقیاس قول  الامام   محمد   رحمہ اللہ  تعالی أن تجوز  فیہ النسیئة أیضا ،لأن الفلوس (وھی الأثمان الاصطلاحیۃ )  لو بیعت  بخلاف جنسھا من الأ  ثمان،  مثل الدراھم ، فیجوز   فیھا   التفاضل والنسیئة جمیعا  ،بشرط  أن یقبض أحد البدلین    فی المجلس،لئلا  یؤدی  الی  الافتراق  عن دین بدین ..... فلاتجوز  النسیئة   فی  الموقف  الثانی وتجوز فی الموقف  الثالث ھو  الذی اخترتہ   فی رسالتی أحکا م أوراق النقدیہ.( فقہ البیوع: 2/739)

  قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :   مطلب تجب طاعة الإمام فيما ليس بمعصية. قال في الظهيرية: وهو تأويل ما روي عن أبي يوسف ومحمد فإنهما فعلا ذلك لأن هارون أمرهما أن يكبرا بتكبير جده ففعلا ذلك امتثالا له لا مذهبا واعتقادا قال في المعراج لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة .

(رد المحتار: 2/ 172)

وقال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی :(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز لما مر.

و قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی ؛  لأن ما في الأصل لا يمكن حمله، على أنه لا يشترط التقابض، ولو من أحد الجانبين، لأنه يكون افتراقا عن دين بدين وهو غير صحيح. فيتعين حمله على أنه لا يشترط منهما جميعا بل من أحدهما فقط. ( الدر المختار: 5/ 179)

المحیط البرہانی: ويكون مضموناً على الغاصب والمستهلك بالمثل استقراضه (جائز) ‌؛لأن ‌المقبوض ‌بحكم ‌القرض ‌مضمون ‌بالمثل ‌من ‌غير ‌زيادة ‌ولا ‌نقصان. (124/7

مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر: القرض هو عقد مخصوص يرد على دفع مال ‌مثلي لرد مثله وصح في ‌مثلي لا في غيره فصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا.

(مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر : 2: 82)

قال العلامۃ الحصکفی  رحمہ اللہ تعالی: (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء ،(فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح ، و) العوضان (لا يتعينان) حتى لو استقرضا فأديا قبل افتراقهما أو أمسكا ما أشار إليه في العقد وأديا مثلهما جاز. ( رد المحتار :5/ 259)

قال العلامۃ الحصکفی  رحمہ اللہ تعالی:(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز . . ( رد المحتار :5/ 791)

قال شیخ الإسلام مفتی تقی عثمانی دامت برکاتھم العالیہ: النسیئة في تبادل العملات بغیر جنسها… وإنما حاصل اشتراط ثمن المثل أن لایتعدی هذا التفاضل إلی حد یکون حیلة للربا. (فقه البیوع :2/747)

و في المعاییر الشرعیة: 2/11 اجتماع الصرف والحوالة المصرفیة : یجوز إجراء حوالة مصرفیة بعملة مغایرة للمبلغ المقدم من طالب الحوالة، وتتکون تلك العملیة من صرف بقبض حقیقي أو حکمي بتسلیم المبلغ لإثباته بالقید المصرفي، ثم حوالة (تحویل) للمبلغ بالعملة المشتراة من طالب الحوالة. ویجوز للمؤسسة أن تتقاضی من العمیل إجرة التحویل.( المعاییر الشرعیة،ص:52)

شمس اللہ

 دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

/6رجب المرجب ،1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

شمس اللہ بن محمد گلاب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب