86145 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ واپس کرنے کابیان |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سائلہ فضیلت بنت امروز خان کو اس کے سابقہ شوہر عزیز احمد نے 01 دیا گیا تھا، واپس کرنے کی شرط پر لیا گیا، مگر یہ کہہ کر واپس نہیں کیا گیا کہ وہ تحفہ اور ہدیہ دیا تھا، اس لیے اس کی واپسی مجھ پر لازم نہیں۔ اسی طرح کمپنی میں بغیر کسی شرط کے ایک فیصد شیئرنگ بھی دی گئی تھی۔ اب طلاق کے بعد عزیز احمد، جس سے سائلہ کی چار اولادیں بھی ہیں، اس سے انکاری ہے، جبکہ ان تمام چیزوں کے ثبوت موجود ہیں۔پوچھنایہ ہےکہ ١۔صورتِ مذکورہ میں 8 تولہ سونا اورہیرے کی انگوٹھی لوٹانے کا عزیز احمد شرعاً پابند ہے یا نہیں؟ ۲۔ کمپنی میں جو شیئرنگ دی گئی تھی، کیا طلاق کے ساتھ وہ ختم ہوگئی یا بدستور باقی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
١۔شرعاً بیوی سے ہدیہ واپس لینا جائز نہیں ہے، لہٰذا مسئولہ صورت میں جب فضیلت کے شوہر نے اسے 8 تولہ سونا بمع ہیرے کی انگوٹھی ہدیہ دی تھی، جیسا کہ وہ خود بھی اعتراف کرتا ہے، تو یہ اس کی ملکیت ہو گئی تھی، اور اب اس کی رضا کے بغیر اس سے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا، فضیلت کے شوہر پر لازم ہے کہ مذکورہ چیزیں(8 تولہ سونا اورہیرے کی انگوٹھی) فضیلت کو واپس کر دے۔ واضح رہے کہ اگر بیوی نے مذکورہ مہر (5لاکھ) معاف نہ کیا ہو اور نہ ہی اس کے بدلے طلاق لی ہو تو شوہر اس کی ادائیگی کا بھی پابند ہے۔ ۲۔کمپنی کی شیرنگ باقی ہے،اس لیے یہ خاوند کی طرف سے غیرمنقسم چیز کا ہبہ تھاجو تام ہوگیاتھااورخاوند چونکہ بیوی سے ہدیہ اس کی رضامند کے بغیر واپس نہیں لے سکتاہے،لہذا مسئولہ صورت میں فضیلت کی ایک فیصد شیئرنگ کمپنی میں باقی ہے ۔
حوالہ جات
الفتاوی الهندية: وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية(. (1 / 327 وفی الهداية : قال و إن وهب هبة لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها لقوله عليه الصلاة و السلام: إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها ؛ و لأن المقصود فيها صلة الرحم و قد حصل "وكذلك ما وهب أحد الزوجين للآخر"؛ لأن المقصود فيها الصلة كما في القرابة۔اھ (3/ 292) المبسوط للسرخسي (12/ 74) (وإذا وهب الرجل للرجل نصف عبد، أو ثلثه، وسلمه: جاز) ؛ لأنه مما لا يقسم، وقد بينا أن هبة المشاع فيما لا يحتمل القسمة صحيحة فإذا وهب جزءا مسمى، وسلمه بالتخلية: جاز؛ وهذالأن الحاجة تمس إلى إيجاب التبرع فيما لا يحتمل القسمةفلو لم يجز ذلك ضاق الأمر على الناس لإبطال هذا النوع من التصرف عليهم فيما لا يحتمل القسمة أصلا بخلاف ما يحتمل القسمة، فإنه يتأخر فيه التصرف إلى القسمة، ولا يبطل أصلا، فلا يتحقق فيه الضرورة. وفی فتاوی جامعة الرشید: تُعتبر الشركة بجميع أصولها، من مبانٍ، أثاث، سيارات، آلات، ومواد خام، ضمن الممتلكات غير القابلة للتقسيم. وفي حالة هبة مثل هذه الأشياء، ليس من الضروري تسليم الحيازة الفعلية، بل يكفي تسليم الحيازة الحكمية.( رقم المرجع 21964/45، بعد نقلہ الی العربیة)
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
01/07/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |