03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبہ پر زکوۃ کا حکم
86225زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ قرآن حفظ کرنے پر مجھے سعودی حکومت کی طرف سے 3000 ریال (اس وقت تقریباً 210000 روپے) کا تحفہ ملا۔ کیا مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

          عاقل بالغ شخص پر کسی بھی ذریعہ سے ملکیت میں آنے والی نقد رقم پر اڑھائی فیصد زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ مال ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک قمری سال گزر جائے۔

     مذکورہ صورت میں، سائل کے پاس موجود کل اثاثہ جات، جیسے نقد رقم (بشمول یہ تحفہ)، سونا، چاندی  اور سامان تجارت،اگر نصاب زکوۃ کو پہنچتے ہیں اور سال گزر جاتا ہے، تو اڑھائی فیصد زکوٰۃ واجب ہوگی۔

    مثال کے طور پر،چاندی کی موجودہ قیمت فی تولہ تقریبا ً3200روپے کے حساب سے نصاب  زکوۃ (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی مالیت 168000 روپے بنتی ہے،اگر سائل کے کل  اثاثے)    210,000  (روپے ہیں اور ان پر سال گزر چکا ہے،تو یہ رقم  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے  زائد  ہے۔لہذا ، اس  پر  اڑھائی فیصد کے حساب سے  5,250روپے زکوٰۃ ادا کرناواجب   ہے۔

حوالہ جات

الموسوعة الفقهية الكويتية (23/ 267):

إن مما لا شك فيه أن الزكاة في الأوراق النقدية واجبة، نظرا لأنها عامة أموال الناس ورءوس أموال التجارات والشركات وغالب المدخرات، فلو قيل بعدم الزكاة فيها لأدى إلى ضياع الفقراء والمساكين، وقد قال الله تعالى: {وفي أموالهم حق للسائل والمحروم} (3) ولا سيما أنها أصبحت عملة نقدية متواضعا عليها في جميع أنحاء العالم، وينبغي تقدير النصاب فيها بالذهب أو الفضة۔

رد المحتار ط الحلبي (2/ 267):

(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما ‌للتجارة ‌بأصل ‌الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة۔

حسن علی عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

06 /رجب  1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب