86310 | نماز کا بیان | جمعہ و عیدین کے مسائل |
سوال
اسلام آباد شہر کے مضافات میں ایک چھوٹا قصبہ "کوٹ جندا" ہے، یہ علاقہ تحصیل خان پور (خیبر پختونخوا) کا حصہ ہے، لیکن اسلام آباد کے قریب ہے، F9 سے دس (10) کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہاں کے لوگوں کی ضروریات اسلام آباد سے پوری ہوتی ہیں۔ پورے قصبہ میں تقریبا دو ہزار (2,000) گھر ہوں گے، اکثر گھر ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں، بالغ مرد تقریباً ایک ہزار (1,000) سے زیادہ ہوں گے۔ قصبے میں پانچ (5) کریانہ سٹور ہیں، تین (3) ایک جگہ پر اور دو (2) دوسری جگہ پر، ان دکانوں میں سبزی بھی ملتی ہے، درزی کی دکان بھی ہے۔ قصاب کی دکان نہیں ہے، گوشت اسلام آباد سے لانا پڑتا ہے۔ کھلا دودھ نہیں ملتا، کریانہ سٹور سے ڈبوں والا دودھ مل جاتا ہے۔ جوتوں کی دکان، کپڑوں کی دکان، ہسپتال، ڈاکٹر کا کلینک، حجام، ڈاک خانہ اور تھانہ وغیرہ موجود نہیں۔ راستہ کچا ہے۔ قصبے کے اکثر لوگ ملازمت پیشہ ہیں، ان کی ملازمتیں اسلام آباد یا پھر دوسرے شہروں میں ہیں، البتہ کچھ لوگ گاؤں میں مذکورہ دکانیں چلاتے ہیں، کچھ مزدوری کرتے ہیں، کچھ کھیتی باڑی کرتے ہیں، تقریبا سو (100) تک لوگوں کی آمدن اسی گاؤں سے وابستہ ہوگی۔
اس قصبے میں آٹھ (8) مساجد ہیں، چار (4) میں جمعہ ہوتاہے، جن میں سے دو مساجد بریلوی حضرات کی ہیں، ایک اہلِ حدیث حضرات کی اور ایک ہمارے دیوبندی حضرات کی ہے، جس کا امام میں ہوں۔ پہلی تین مساجد میں تو بہت عرصےسے جمعہ ہو رہا تھا، جبکہ ہماری مسجد میں میرے آنے کے بعد جمعہ شروع ہوا ہے جس کو کل چار سال ہوگئے ہیں، اُس وقت محلے کے ایک دو آدمیوں نے مجھ سے نمازِ جمعہ کا کہا اور بتایا کہ ہم نے پوچھا ہے، یہاں جمعہ صحیح ہے، میں نے بھی مزید تحقیق نہیں کی اور جمعہ شروع کرلیا۔ ہماری مسجد میں جمعہ کی نماز میں عاقل بالغ مرد چالیس سے زیادہ ہوتے ہیں۔اس گاؤں کی کوئی مسجد اتنی بڑی نہیں جس میں گاؤں کے سب لوگ آسکیں۔
اب مجھے خیال آیا تو میں نے اسلام آباد کے بعض مفتیانِ کرام سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ لوگ جمعہ بند کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اگر جمعہ جائز نہیں ہے تو میں استعفا دیدوں گا، وہ اپنے لیے دوسرے امام کا انتظام کرلیں گے، انہوں نے بتایا کہ جب پہلے سے جمعہ ہو رہا ہے اور بند کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہے تو آپ جاری رکھیں، لیکن نئی جگہ میں جمعہ شروع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس تمام صورتِ حال کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ:-
(1)۔۔۔ کیا مذکورہ قصبہ "کوٹ جندا" میں نمازِ جمعہ صحیح ہے یا نہیں؟
(2)۔۔۔ اگر اس قصبہ میں احناف کے نزدیک جمعہ کی نماز صحیح نہیں تو باقی ائمہ میں سے کسی کے مذہب کے مطابق جمعہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
(3)۔۔۔ اگر یہاں نمازِ جمعہ صحیح نہیں تو ہم نے چار سال جمعہ کی جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ حضراتِ حنفیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی جگہ نمازِ جمعہ صحیح ہونے کے لیے اس جگہ کامصر، فناءِمصر یا قریۂ کبیرہ یعنی قصبہ ہوناضروری ہے۔ ذیل میں ان تینوں اصطلاحات کی تعریفات ملاحظہ فرمائیں:-
(الف)۔۔۔ مصرکی تعریف: حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ:
"مصر" ایسا بڑا شہر ہوتا ہے جس میں مختلف گاؤں، محلے اور بازار ہوں، اور اس میں ایسا والی ہو جو علم وقوت کے ذریعے مظلوم کو ظالم سے انصاف دلانے پر قادر ہو اور لوگ پیش آمدہ حادثات ومسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں۔ (تحفۃ الفقہاء:1/ 162)
(ب)۔۔۔ فناءِمصر: شہر سے متصل وہ جگہ ہے جس سےشہروالوں کی ضروریات وابستہ ہوں۔
(ج)۔۔۔ قصبہ کی تعریف: علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"جہاں چار ہزارکےقریب یا اس سےزیادہ آبادی ہو،ایسا بازار موجودہو جس میں دُکانیں چالیس، پچاس متصل ہوں، اور بازار روزانہ لگتاہو، اور بازار میں ضروریات روز مرّہ کی ملتی ہوں، مثلاً: جوتہ کی دُکان بھی ہو، اور کپڑےکی بھی،عطّارکی بھی ہو، بزاز کی بھی،غلّہ کی بھی اور دودھ گھی کی بھی، اور وہاں ڈاکٹر یاحکیم بھی ہوں، معمار و مستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ، اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہو، اور پولیس کاتھانہ یاچوکی بھی ہو۔اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سےموسوم ہوں۔ پس جس بستی میں یہ شرائط موجود ہوں گی وہاں جمعہ صحیح ہوگا، ورنہ صحیح نہ ہوگا۔ (امدادالاحکام :1/ 756)
واضح رہے کہ قصبہ کی تعریف عرف پر مبنی ہے، اس لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس میں آبادی کی کوئی متعین مقدار مقرر نہیں فرمائی، بلکہ بطورِ مثال ایک تعداد بیان فرمالیتے ہیں، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معتد بہ آبادی ہو اور اس جگہ کی مجموعی ہیئت ایسی ہو کہ اسے بڑا گاؤں کہا جاسکے۔ چنانچہ بعض فتاوی میں دو ڈھائی ہزار کی آبادی کو بھی اپنی مجموعی ہیئت اور ضرورت کی تمام اشیاء دستیاب ہونے کی صورت میں قصبہ قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: فتاویٰ رحیمیہ: 6/101۔ فتاویٰ دار العلوم دیوبند:5/57۔54۔55۔41 اور خیر الفتاویٰ: 3/41)
سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق "کوٹ جندا" نہ تو مصر ہے، نہ فناءِ مصر ہے، نہ ہی قصبۂ کبیرہ ہے، اس لیے حضراتِ حنفیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہاں جمعہ قائم کرنا جائز نہیں۔
(ملاحظہ فرمائیں نمبر:1 کے تحت آنے والی "العبارات المشتملة علی بیان المذهب الحنفي")
(2)۔۔۔ اگر کسی ایسی جگہ پہلے سے جمعہ جاری ہو جہاں حنفیہ کے نزدیک جمعہ صحیح نہ ہو اور ائمۂ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی) میں سے کسی امام کے نزدیک وہاں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں تو اختلاف اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے اگر اس علاقے کا مجاز حاکم، مثلاً کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا مجسٹریٹ وہاں جمعہ قائم کرنے کا حکم نامہ جاری کرے تو اس کے بعد وہاں نمازِ جمعہ جاری رکھنا جائز ہوتا ہے؛ لأن حکم الحاکم رافع للخلاف.
اب سوال یہ ہے کہ کیا "کوٹ جندا" میں ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی امام کے نزدیک صحتِ جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ اس کے لیے پہلے ان تینوں حضرات کے مذاہب کی کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:-
مالکیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحتِ جمعہ کی شرائط:
- جہاں جمعہ قائم کیا جائے وہ ایسا گاؤں ہو جس میں لوگ کچے، پکے یا لکڑیوں کے مکانات میں مستقل رہائش پذیر ہوں، خیموں میں رہنے والے نہ ہوں جو کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔
- وہاں اتنے لوگ ہوں جن سے وہ جگہ گاؤں بن سکے، یعنی وہ خود اپنا دفاع کرسکیں، دوسرے لوگوں سے مستغنی ہوں اور سردی، گرمی دونوں موسموں میں وہاں گزر بسر کرسکیں۔ بعض فقہائے مالکیہ نے گاؤں بن سکنے کی تشریح میں اس بات کا تذکرہ بھی فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی معیشت کا انتظام اسی گاؤں سے ہوتا ہو یا پھر کسی ایسی جگہ سے جو اس گاؤں سے زیادہ سے زیادہ ایک فرسخ یعنی تین میل شرعی کے فاصلے پر ہو،اس سے زیادہ دور نہ ہو۔ جبکہ شرح الزرقانی میں علامہ فیشی رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ راجح قول کے مطابق اگر گاؤں میں بارہ (12) افراد ایسے ہوں جن سے گاؤں، گاؤں بن سکے اور باقی لوگ ایسے نہ ہوں تو وہاں جمعہ صحیح ہوگا، اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ اگربارہ (12) افراد کی معیشت اسی گاؤں سے وابستہ ہو تو یہ بھی صحتِ جمعہ کے لیےکافی ہے۔
- پہلے جمعہ میں کم از کم امام کے ساتھ خطبے کی ابتدا سے سلام پھیرنے تک بارہ (12) مسلمان، عاقل، بالغ مرد شریک ہوں اور ان کا فقہی مسلک ایک ہو، یعنی سب حنفی ہوں، سب مالکی ہوں، سب شافعی ہوں یا پھر سب حنبلی ہوں۔
- مسجد گاؤں کی عام آبادی سے کمزور نہ ہو، کم از کم عام آبادی جیسی ہو۔
- گاؤں میں ایک ہی جمعہ ہو، البتہ اگر سب لوگ ایک مسجد میں نہ سما سکتے ہوں تو پھر ایک سے زیادہ جمعے بھی درست ہیں۔
- جمعہ کا امام وہاں مقیم ہو اور خطبہ بھی وہ خود دے، الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔
(ملاحظہ فرمائیں نمبر:2 کے تحت آنے والی " العبارات المشتملة علی بیان المذهب المالکي")
شافعیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحتِ جمعہ کی شرائط:
- جہاں جمعہ قائم کیا جائے وہ جگہ شہر یا گاؤں ہو۔
- اس جگہ امام کے علاوہ کم از کم چالیس (40) عاقل، بالغ، آزاد، مکلف مرد مستقل رہائش پذیر ہوں۔ ایک قول کے مطابق امام سمیت چالیس افراد کا ہونا ضروری ہے۔
- پہلے عربی خطبہ کی ابتدا سے نماز کے اختتام تک امام کے ساتھ اوپر نمبر: 2 میں مذکور افراد مستقل موجود رہیں۔
- اس شہر یا گاؤں میں ایک ہی جگہ جمعہ ہو۔ البتہ جگہ تنگ ہونے یا دور ہونے کی بنیاد پر تعددِ جمعہ کی گنجائش بھی منقول ہے۔
(ملاحظہ فرمائیں نمبر:3 کے تحت آنے والی "العبارات المشتملة علی بیان المذهب الشافعي" )
حنابلہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحتِ جمعہ کی شرائط:
- جہاں جمعہ قائم کیا جائے وہاں کے مکانات پختہ ہوں، کچے ہوں یا لکڑی کے ہوں، لیکن خیموں کی شکل میں نہ ہوں جو مستقل رہائش کے لیے نہیں ہوتے۔
- مکانات ایک دوسرے سے اتنے زیادہ فاصلے پر نہ ہوں جو عموما ایک گاؤں کے گھروں میں نہیں ہوتا، بلکہ سارے مکانات یا کم از اتنے مکانات جن میں چالیس عاقل بالغ مرد رہتے ہوں، ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوں جیسے عموما ایک گاؤں کے مکانات ہوتے ہیں، بالکل اکٹھے ہونا ضروری نہیں۔
- جمعہ کے خطبے کی واجب مقدار میں کم از کم چالیس (40) افراد حاضر ہوں۔
- جمعہ کی نماز میں بھی کم از کم چالیس (40) افراد حاضر ہوں۔
- یہ چالیس (40) افراد مسلمان، عاقل، بالغ، مرد ہوں اور ان پر جمعہ فرض ہو۔
(ملاحظہ فرمائیں نمبر:4 کے تحت آنے والی "العبارات المشتملة علی بیان المذهب الحنبلي")
مذاہبِ ثلاثہ میں صحتِ جمعہ کی شرائط اور تلفیق سے متعلق اہم وضاحت:
صحتِ جمعہ کے لیے مذاہبِ ثلاثہ کی مذکورہ بالا شرائط میں بعض شرائط ایسی ہیں جن کا تعلق اس جگہ اور مقام سے ہے جہاں جمعہ قائم کیا جا رہا ہو، جبکہ بعض کا تعلق جگہ سے نہیں، بلکہ نماز سے ہے۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک شرط یہ ہے کہ اس جگہ میں کم از کم چالیس (40) عاقل، بالغ آزاد مرد مستقل رہائش پذیر ہوں، یہ شرط جگہ سے متعلق ہے، جبکہ دوسری شرط یہ ہے کہ یہ سب افراد عربی خطبہ کی ابتدا سے نماز ختم ہونے تک امام کے ساتھ موجود بھی رہیں، یہ شرط جگہ سے متعلق نہیں، بلکہ نماز سے متعلق ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حاکم کے حکم نامہ سے جمعہ جائز ہونے کے لیے ان دونوں قسم کی شرائط کا پایا جانا ضروری ہوگا یا صرف جگہ اور مقام سے متعلق شرائط کا پایا جانا کافی ہوگا ؟ صرف جگہ اور مقام سے متعلق شرائط میں ان کا مذہب لینے سے ممنوع تلفیق کا ارتکاب تو نہیں ہوگا؟
اس بارے میں غور و فکر کے بعد درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف جگہ سے متعلق شرائط کا پایا جانا ضروری ہوگا؛ لہٰذا اگر کسی جگہ میں یہ شرائط موجود ہوں اور دوسری قسم کی شرائط (جن کا تعلق جگہ سے نہیں، نماز سے ہو) موجود نہ ہوں تو اس سے ممنوع تلفیق لازم نہیں آئے گی؛ کیونکہ ممنوع تلفیق وہ ہے جس میں ایک ہی مسئلے میں دو مذاہب کو اس طرح جمع کیا جائے کہ کسی مذہب والوں کے نزدیک وہ عمل درست نہ ہو، لیکن ضرورت یا حاجت کی وجہ سے قاضی کے فیصلے یا مستند اہلِ افتاء کے فتویٰ کی روشنی میں ایک مسئلے میں ایک مذہب کو لینا اور دوسرے مسئلے میں دوسرے مذہب کو لینا ممنوع تلفیق میں داخل نہیں۔
زیرِ بحث مسئلے میں صحتِ جمعہ کی شرائط اگرچہ بظاہر ایک ہی مسئلہ نظر آتا ہے، لیکن غور کیا جائے تو جگہ سے متعلق صحتِ جمعہ کی شرائط ایک مسئلہ ہے، جبکہ نماز سے متعلق صحتِ جمعہ کی شرائط اس سے الگ اور مختلف مسئلہ ہے، اس لیے اگر جگہ کے حق میں ائمۂ ثلاثہ میں سے کسی امام کا مذہب لیا جائے اور باقی نمازِ جمعہ حنفیہ کے مذہب کے مطابق ادا کی جائے تو یہ ممنوع اور باطل تلفیق نہیں ہوگی۔
اس مسئلے میں ممنوع تلفیق کی صورت (مثلاً) اس طرح بنے گی کہ جگہ کے گاؤں ہونے کے حق میں مالکیہ اور شافعیہ کے مذہب کو لیا جائے اور وہاں مستقل رہائش پذیر افراد کے حق میں حنفیہ کے مذہب کو لیا جائے، ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ یہ ایک ہی مسئلہ ہے کہ کونسی جگہ اقامتِ جمعہ کے لیے صالح ہے اور کونسی جگہ صالح نہیں۔
(ملاحظہ فرمائیں نمبر:5 کے تحت آنے والی " العبارات المشتملة علی بیان حکم التلفیق")
اصل سوال کا جواب:
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال نامہ میں ذکر کردہ معلومات کی روشنی میں "کوٹ جندا" میں مذاہبِ ثلاثہ کے مطابق صحتِ جمعہ کی شرائط پائی جا رہی ہیں، اس لیے اختلاف اور انتشار سے بچنے کے لیے اس علاقے کے مجاز حاکم (مثلاً کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ) کے حکم نامہ جاری کرنے کے بعد یہاں نمازِ جمعہ قائم کرنا درست ہوگا۔
(3)۔۔۔ اب تک "کوٹ جندا" میں جمعہ کی جتنی نمازیں پڑھی گئی ہیں، ان تمام نمازوں کی جگہ ظہر کی قضاء پڑھنا لازم ہے، البتہ جو لوگ فوت ہوگئے ہیں یا جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے ان تمام نمازوں کی قضا پڑھنے سے عاجز ہوں، ان کی سابقہ نمازوں کو ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے مذہب کے مطابق درست قرار دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، لیکن آئندہ جب تک مجاز حاکم وہاں جمعہ کی نماز قائم کرنے کا حکم نامہ جاری نہ کرے، اس وقت تک نمازِ ظہر باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
(ملاحظہ فرمائیں نمبر:6 کے تحت آنے والی "العبارات الدالة علی جواز القول بعدم لزوم القضاء")
حوالہ جات
(1)العبارات المشتملة علی بیان المذهب الحنفي:
إعلاء السنن (5/2247):
2015- عن علی رضی الله عنه أنه قال: "لا جمعة، ولا تشریق إلا فی مصر جامع". أخرجه أبو عبید بإسناد صحیح إلیه موقوفاً. ومعناه لا صلاة جمعة، ولا صلاة عید، کذا فی فتح الباری. ورواه عبدالرزاق فی مصنفه: أنبأ الثوری عن زبید الأیامی عن سعد بن عبیدة عن أبی عبد الرحمن السلمی عن علی رضی الله عنه قال: "لا تشریق، ولا جمعة إلا فی مصر جامع"، کذا فی نصب الرایة، وفی الدرایة: إسناده صحیح.
تحفة الفقهاء (1/ 162):
وأما المصر الجامع فقد ذكرالكرخي: ما أقيمت فيه الحدود، ونفذت فيه الأحكام . وقد تكلم فيه أصحابنا بأقوال. وروي عن أبي حنيفة رحمه الله: هو بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق، ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره، ويرجع الناس إليه فيما وقع لهم من الحوادث، وهذا هو الأصح.
الدر المختار (2/ 138):
وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي، وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، فليحفظ.
رد المحتار (2/ 138):
قوله ( وفي القهستاني إلخ ) تأييد للمتن، وعبارة القهستاني: تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق. قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة؛ لأن هذا مجتهد فیه، فإذا اتصل به الحکم صار مجمعا علیه.
وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات. والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة. ألا ترى أن في الجواهر: لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم؛ فإن في فتاوى الديناري: إذا بنى مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي، اه فافهم. والرستاق القرى كما في القاموس.
النهر الفائق (1/ 355):
وعن الهندواني: قول الناس يصلي أربعًا بنية أقرب صلاة علي" ليس له أصل في الروايات، ولا شك في جواز الجمعة في البلاد والقصبات.
إعلاء السنن (5/2262):
فإن قیل: کیف قالت الحنفیة بجواز إقامة الجمعة في القری إذا کان علیها أمیر من الإمام مأذون بإقامة الجمعة بها؟ فهل تصیر القریة بذلك مصرا؟ وهذا خلاف المفروض؛ فإن المفروض أنها قریة، و لم تصر مصرا، فکیف ترکوا هناك أثر علی المصرح بنفي الجمعة عن القریٰ؟
قلنا: تصیر القریة بذلك في حکم المصر؛ فإن القریة التي بها أمیر من الإمام تتبعها القری المتصلة بها التي لیس بها أمراء، فیرجع أهلها إلی تلك القریة في حوادثها. ومثلها یکون مصرا حکما، کما لایخفی علی من شاهد حال القری التي بها أمیر من الإمام. أو نقول: إن أمر الإمام وإذنه قاطع للنزاع في المسائل المجتهد فیها عندنا، واشتراط المصر للجمعة مجتهد فیه (بین) الصحابة والأئمة، فإذا أمر الإمام أمیرا علی القریة وأذن له بإقامة الجمعة بها صحت الجمعة بها عندنا؛ لأجل هذا الأصل.
(2)العبارات المشتملة علی بیان المذهب المالکي:
المدونة (1/ 233):
من تجب عليه الجمعة: قال: وقال مالك في القرية المجتمعة التي قد اتصلت دورها كان عليها وال أو لم يكن، قال: أرى أن يجمعوا الجمعة. قلت: فهل حد مالك في عظم القرية حدا؟ قال لا، إنه قال: مثل المناهل التي بين مكة والمدينة، مثل الروحاء وأشباهها. قال: وقد سمعته غير مرة يقول في القرى المتصلة البنيان التي يكون فيها الأسواق: يجمع أهلها، وقد سمعته غير مرة يقول في القرية المتصلة البنيان: يجمع أهلها، ولم يذكر الأسواق.
الشرح الكبير للدردير (1/ 379-372):
فصل: في بيان شروط الجمعة وسننها ومندوباتها ومكروهاتها ومسقطاتها وما يتعلق بذلك:
(شرط) صحة صلاة (الجمعة) بضم الميم، وحكي إسكانها وفتحها وكسرها (وقوع كلها) أي جميعها (بالخطبة) أي مع جنسها الصادق بالخطبتين (وقت الظهر) …(….. باستیطان بلد) الباء للمعية، وهو العزم على الإقامة بنية التأبيد (أو أخصاص) جمع خص، وهو البيت من قصب ونحوه (لا) تصح بإقامة في (خيم) من قماش أو شعر؛ لأن الغالب على أهلها الارتحال، فأشبهت السفن، نعم إذا كانوا مقيمين على كفرسخ من بلدها وجبت عليهم تبعا، ولا تنعقد بهم (وبجامع) الباء بمعنى في (مبني) بناء معتادا لأهل البلد، فيشمل بناؤه من بوص لأهل الأخصاص، فلا تصح في براح حجر بأحجار مثلا، ولا فيما بنى بما هو أدنى من بناء أهل البلد، كما يأتي قريبا، ويشترط أيضا أن يكون داخل البلد أو قريبا منها بالعرف (متحد)، فإن تعدد لم تصح في الكل، (والجمعة للعتيق) أي ما أقيمت فيه أولًا، ولو تأخر بناؤه، (وإن تأخر) العتيق (أداء) بأن أقيمت فيهما وفرغوا من صلاتها في الجديد قبل جماعة العتيق فهي في الجديد باطلة، ومحل بطلانها في الجديد ما لم يهجر العتيق، وما لم يحكم حاكم بصحتها في الجديد تبعا لحكمه بصحة عتق عبد معين مثلا علق على صحة الجمعة فيه، وما لم يحتاجوا للجديد لضيق العتيق وعدم إمكان توسعته، فليتأمل (لا ذي بناء خف) بأن يكون أدنى من بنيان أهل البلد، فعلم أن شرطه البناء المعتاد والاتحاد (وفي اشتراط سقفه) المعتاد لا صحنه لصحتها فيه وعدم اشتراطه - وهو المعتمد - تردد (و) في اشتراط (قصد تأبيدها) أي الجمعة (به) وعدمه -وهو الأرجح-تردد، ومحل قصد التأبيد على القول به حيث نقلت من مسجد إلى آخر، أما إن أقيمت فيه ابتداء فالشرط أن لا يقصدوا عدمه بأن قصدوا التأبيد أو لم يقصدوا شيئا. (و) في اشتراط (إقامة) الصلوات (الخمس) لصحتها به، فإن بنى على أن لا تقام إلا الجمعة أو تعطلت به الخمس عنه لم تصح به، وعدم اشتراطه، فتصح، وهو المعتمد (تردد) حذفه من الأولين لدلالة هذا عليه ……..الخ
وأشار لرابع شروط الصحة عاطفا له على قوله بجامع بقوله (وبجماعة تتقرى) أي تستغني وتأمن (بهم قرية) بحيث يمكنهم المثوى صيفا وشتاء والدفع عن أنفسهم في الغالب (بلا حد) محصور في خمسين أو ثلاثين أو غير ذلك (أولا) أي ابتداء، أي شرط صحتها وقوعها بالجماعة المذكورة أول جمعة أقيمت، فإن حضر منهم ما لا تتقرى بهم القرية ولو اثني عشر لم تصح (وإلا) بأن لم يكن أولا بل فيما بعدها (فتجوز باثني عشر) رجلا أحرارا متوطنين غير الإمام (باقين) مع الإمام بحيث لم تفسد صلاة واحد منهم (لسلامها) أي إلى سلامهم منها، فإن فسدت صلاة واحد منهم ولو بعد سلام الإمام بطلت على الجميع، وما درج عليه المصنف خلاف التحرير، والتحرير أن الجماعة التي تتقرى بهم القرية شرط وجوب لإقامتها وصحة لها، ويشترط لصحتها أيضا حضور الاثني عشر ولو في أول جمعة، فلو قال: وبحضور اثني عشر إلخ من جماعة تتقرى إلخ لوافق المعول عليه (بإمام) أي حال كون الاثني عشر مع إمام (مقيم) بالبلد إقامة تقطع حكم السفر، ولو لم يكن من أهل البلد، فيصح أن يؤمهم مسافر نوى إقامة أربعة أيام لغير قصد الخطبة ولو سافر بعد الصلاة، وكذا خارج عن قريتها بكفرسخ لوجوبها عليه وإن لم تنعقد به، بخلاف الخارج بأكثر من كفرسخ……….. وأشار لخامس شروط الصحة بقوله: (وبخطبتين قبل الصلاة) فلو خطب بعدها أعاد الصلاة فقط إن قرب وإلا استأنفها لان من شروطها وصل الصلاة بها وكونها داخل المسجد وكونها عربية والجهر بها وكونها (مما تسميه العرب خطبة) بأن يكون كلاما مسجعا يشتمل على وعظ، فإن هلل أو كبر لم يجزه وندب ثناء على الله وصلاة على نبيه وأمر بتقوى ودعاء بمغفرة وقراءة شئ من القرآن كما سيأتي (تحضرهما الجماعة) الاثنا عشر، فإن لم يحضروهما أو بعضهم من أولهما لم يكتف بذلك لانهما منزلتان منزلة ركعتين من الظهر (واستقبله) وجوبا وقيل سنة، ورجح (غير الصف الاول) بذواتهم وكذا الصف الاول على الارجح (وفي وجوب قيامه لهما) وهو قول الاكثر وسنيته وهو لابن العربي (تردد).
ولما فرغ من شروط الصحة الخمسة شرع في شروط وجوبها، وهي خمسة أيضا، فقال: (ولزمت المكلف) في عده من شروطها نظر؛ إذ الشئ لا يعد شرطا لشئ إلا إذا كان خاصا بذلك الشئ (الحر الذكر) فإن حضرها رقيق أو امرأة أجزأته……………. الخ
حاشية الدسوقي (1/ 376):
قوله ( وبجماعة ) عطف على قوله "وبجامع"، والباء فيه يحتمل أن تكون للمعية، أي شرط صحتها وقوعها في الجامع مع جماعة، ويحتمل أن تكون للظرفية، أي شرط صحتها أن تكون في جامع وفي جماعة. قوله ( المثوى ) أي الإقامة……. قوله ( غير الإمام ) أي وأن يكونوا مالكيين أو حنفيين أو شافعيين قلدوا واحدا منهما، لا إن لم يقلدوا، فلا تصح جمعة المالكي مع اثني عشر شافعيين لم يقلدوا؛ لأنه يشترط في صحتها عندهم أربعون يحفظون الفاتحة بشداتها.
الخلاصة الفقهية على مذهب السادة المالكية ـ للقروى (ص: 123):
بجماعة تتقرى بهم القرية ويستغنون عن غيرهم في معاشهم والأمن على أنفسهم،فإن كانوا مستندين في معاشهم لغيرهم وكانوا على نحو فرسخ من قرية الجمعة وجبت عليهم تبعا لأهل القرية.
الفواكه الدواني (2/ 625):
وحقيقة الاستيطان نية الإقامة على التأييد مع الأمن على النفس والمال، وهو المراد بكون الجماعة تتقری بها القریة.
بلغة السالك (1/ 326-325):
وحاصل ذلك أن شروط الصحة إجمالا خمسة : أولها الاستيطان وله شرطان : أن يكون ببلد أو أخصاص ، وأن يكون بجماعة تتقرى بهم تلك القرية عادة بالأمن على أنفسهم والاستغناء إلى آخر ما قال الشارح . والشرط الثاني : حضور اثني عشر رجلا ؛ وله ثلاثة شروط : الأول : كونهم من أهل البلد . الثاني : بقاؤهم من أول الخطبتين للسلام . الثالث : كونهم مالكيين أو حنفيين أو شافعيين مقلدين لمالك أو أبي حنفية وإن لم ينص على هذا الشارح . والشرط الثالث: الإمام . وله شرطان : كونه مقيما إن لم يكن هو الخليفة، وكونه الخاطب إلا لعذر؛ والشرط الرابع: الخطبتان، وذكر الشارح لهما شروطاً ثمانية، ويزاد تاسع، وهو اتصالهما بالصلاة . والشرط الخامس : الجامع، وله شروط أربعة، كما قال الشارح. فتكامل تفصيل شروط الصحة خمسة وعشرين .
قوله : ( بجماعة تتقرى ) إلخ : أي قال شيخنا في حاشية مجموعة : بأن يدفعوا عن أنفسهم الأمور الغالبة ، ولا يضر خوفهم من الجيوش الكثيرة؛ لأن هذا يوجد في المدن ، ولا بد أن يكون الأمن بنفس العدد، فلا يعتبر جاه ولا اعتقاد ولاية مثلا؛ لأن الأمن بواسطة ذلك قد يكون مع قلة العدد جداً . ( اه ) .
مواهب الجليل لشرح مختصر الخليل (2/ 525):
ومعنى قوله: تتقرى بهم قرية أي يمكنهم الثواء أي الإقامة آمنين مستغنين عن غيرهم في الدفع عنهم. قال الأبي في شرح مسلم: قال الأبهري وابن القصار وعبد الوهاب والباجي: لا حد لمن يقام بهم، بل المعتبر أن تكون الجماعة تتقرى بهم قرية بحيث يمكنهم الثواء بها آمنين. قال المازري وابن رشد: وهو المشهور، وقال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: وذلك يختلف بالنسبة إلى الجهات في كثرة الأمن والخوف، ففي الجهات الآمنة تتقرى بالنفر اليسير، بخلاف غيرها مما يتوقع فيه الخوف، انتهى. وقال ابن عبد السلام: وأما الموضع الذي يمكن فيه الثواء فينبغي أن يختلف الحكم فيه باختلاف الجهات، فالبلاد التي سلمت من الفتن تتقرى القرية فيها بجماعة يسيرة في الخصوص، وغيرهم بخلاف ذلك، انتهى. وقال الأبي: معنى "يمكنهم الثواء" يدفعون عن أنفسهم، انتهى. وقال في المدونة: ويصلي الجمعة أهل القرية المتصلة البنيان كالروحاء وما أشبهها، وكذلك أهل الخصوص كان عليهم وال أو لم يكن. وقال مرة: القرية المتصلة البنيان التي فيها الأسواق يجمع أهلها، ومرة لم يذكر الأسواق انتهى. قال الأبي في شرح مسلم: الصحيح عدم اشتراط الأسواق، وإنما ذكرها مالك؛ لأنها مظنة لكثرة الناس الذين تتقرى بهم القرية، فلو اجتمع من تتقرى بهم قرية ولا سوق عندهم جمعوا.
قال: وأما اتصال البنيان فشرط، فلو لم تتصل كدور جربة ودور جبال الغرب لم يجمعوا. بهذا وقعت الفتيا. والأظهر أنهم إن كانوا من القرب بحيث يرتفق بعضهم ببعض في ضروریاتهم والدفع عن أنفسهم جمعوا؛ لأنهم وهم کذلك بحکم القریة المتصلة النبیان.
شرح الزرقاني على مختصر خليل وحاشية البناني (2/ 100):
فعلم منه أن المعتمد اشتراط وجود جماعة تتقرى به قرية، ويكتفي بصلاة اثني عشر باقين لسلامها، ولو في أول إقامتها بالبلد. قال الفيشي على العزية: وانظر لو كانت الجماعة الذين تتقرى بهم القرية فيهم اثنا عشر ممن تنعقد بهم والباقي ممن لا تنعقد بهم هل يكتفي بذلك أم لا؟ أهو استظهر عج الأول. فإن قلت: يلزم على ما في ح أن تكون الجماعة شرطًا في الوجوب والصحة، وهما لا يجتمعان هنا، كما مر. قلت: وجوبها بالتقري لا يقتضي أن التقري شرط وجوب. ثم إذا تفرق من تتقرى بهم القرية يوم الجمعة في أشغالهم من حرث أو حصاد ولم يبق إلا اثنا عشر والإمام جمعوا، قاله ابن عرفة. ولو ارتحلت المتقرية هي بهم ولم يبق إلا اثنا عشر والإمام جمعوا إن نوت المرتحلة العود أو أمن العدد الباقي على أنفسهم، كأن لم يكن أهلها إلا اثنا عشر فقط مع إمكانهم الثواء والذب عن أنفسهم، وإلا فلا، كتقريها بثلاثة أو أربعة.
(3)العبارات المشتملة علی بیان المذهب الشافعي:
الأم (1/ 190):
العدد الذين إذا كانوا في قرية وجبت عليهم الجمعة:
( قال الشافعي ) رحمه الله تعالى: لما كانت الجمعة واجبة، واحتملت أن تكون تجب على كل مصل بلا وقت عدد مصلين، وأين كان المصلى من منزل مقام وظعن، فلم نعلم خلافا في أن لا جمعة عليه إلا في دار مقام، ولم أحفظ أن الجمعة تجب على أقل من أربعين رجلا، وقد قال غيرنا لا تجب إلا على أهل مصر جامع.
( قال الشافعي ) رحمه الله تعالى : وسمعت عددا من أصحابنا يقولون تجب الجمعة على أهل دار مقام إذا كانوا أربعين رجلا، وكانوا أهل قرية، فقلنا به، وكان أقل ما علمناه قيل به، ولم يجز عندي أن أدع القول به، وليس خبر لازم يخالفه، وقد يروى من حيث لا يثبت أهل الحديث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع حين قدم المدينة بأربعين رجلا، وروى أنه كتب إلى أهل قرى عرينة أن يصلوا الجمعة والعيدين، وروى أنه أمر عمرو بن حزم أن يصلى العيدين بأهل نجران.
( قال الشافعي ) رحمه الله تعالى : أخبرنا إبراهيم بن محمد قال أخبرنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز عن أبيه عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة قال: كل قرية فيها أربعون رجلا فعليهم الجمعة.
( قال الشافعي ) رحمه الله تعالى: أخبرنا الثقة عن سليمان بن موسى أن عمر بن عبد العزيز كتب إلى أهل المياه فيما بين الشام إلى مكة جمعوا إذا بلغتم أربعين رجلا.
( قال الشافعي ) رحمه الله تعالى: فإذا كان من أهل القرية أربعون رجلا، والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر؛ لأن هذا بناء كله، وتكون بيوتها مجتمعة، ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة، مثل ظعن أهل القرى، وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى، فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون، ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حرا بالغا، فإذا كانوا هكذا رأيت - والله تعالى أعلم - أن عليهم الجمعة، فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم.
( قال الشافعي ) رحمه الله تعالى: ولو كانت قرية فيها هذا العدد أو أكثر منه، ثم مات بعضهم، أو غابوا، أو انتقل منهم حتى لا يبقى فيها أربعون رجلا لم يكن لهم أن يجمعوا، ولو كثر من يمر بها من المسلمين مسافرا أو تاجرا غير ساكن لم يجمع فيها إذا لم يكن أهلها أربعین.
الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع، للخطیب الشربيني(1/ 466-455):
ثم شرع في القسم الثاني، وهو شروط الصحة، فقال: ( وشرائط ) صحة ( فعلها ) مع شروط غيرها ( ثلاثة ) بل ثمانية، كما ستراها.
الأول: ( أن تكون البلد ) أي أن تقام في خطة أبنية أوطان المجمعين من البلد، سواء الرحاب المسقفة والساحات والمساجد……..(مصرا) كانت (أو قرية) بحيث لاتقصر فيه الصلاة…… الخ
(و) الثاني من شروط الصحة: ( أن يكون العدد أربعين ) رجلا ولو مرضى، ومنهم الإمام ( من أهل الجمعة ) وهم الذكور الأحرار المكلفون المستوطنون بمحلها، لا يظعنون عنه شتاء ولا صيفا إلا لحاجة………. ولو نقصوا فيها بطلت لاشتراط العدد في دوامها، كالوقت فيها، وقد فات، فيتمها الباقون ظهرا، أو في خطبة لم يحسب ركن منها فعل حال نقصهم لعدم سماعهم له، فإن عادوا قريبا عرفا جاز البناء على ما مضى منها، فإن عادوا بعد طول الفصل وجب استئنافها لانتفاء الموالاة التي فعلها النبي صلى الله عليه وسلم والأئمة بعده، فيجب اتباعهم فيها، كنقصهم بين الصلاة والخطبة، فإنهم إن عادوا قريبا جاز البناء وإلا وجب الاستئناف لذلك…………. الخ
(و) الثالث من شروط الصحة: ( الوقت ) وهو وقت الظهر للاتباع، رواه الشيخان مع خبر "صلوا كما رأيتموني أصلي"، فيشترط الإحرام بها، وهو ( باق ) بحيث يسعها جميعها ( فإن خرج الوقت ) أو ضاق عنها وعن خطبتيها أو شك في ذلك ( أو عدمت الشروط ) أي شروط صحتها أو بعضها كأن فقد العدد أو الاستيطان ( صليت ) حينئذ ( ظهرا )……. الخ
والرابع من الشروط: وجود العدد كاملا من أول الخطبة الأولى إلى انقضاء الصلاة؛ لتخرج مسألة الانفضاض المتقدمة.
والخامس من الشروط: أن لايسبقها ولايقارنها جمعة في محلها ولو عظم، كما قاله الشافعي؛ لأنه صلى الله عليه وسلم والخلفاء الراشدين لم يقيموا سوى جمعة واحدة، ولأن الاقتصار على واحدة أفضى إلى المقصود من إظهار شعار الاجتماع واتفاق الكلمة. قال الشافعي: ولأنه لو جاز فعلها في مسجدين لجاز في مسجد العشائر ولا يجوز إجماعا، إلا إذا كبر المحل وعسر اجتماعهم في مكان بأن لم يكن في محل الجمعة موضع يسعهم بلا مشقة ولا غير مسجد، فيجوز التعدد للحاجة بحسبها؛ لأن الشافعي رضي الله عنه دخل بغداد وأهلها يقيمون فيها جمعتين، وقيل: ثلاثا، فلم ينكر عليهم، فحمله الأكثرون على عسر الاجتماع. قال الروياني: ولا يحتمل مذهب الشافعي غيره. وقال الصيمري: وبه أفتى المزني بمصر، والظاهر أن العبرة في العسر بمن يصلي، لا بمن تلزمه ولو لم يحضر، ولا بجميع أهل البلد، كما قيل بذلك. وظاهر النص منع التعدد مطلقا، وعليه اقتصر صاحب التنبيه، كالشيخ أبي حامد ومتابعيه، فالاحتياط لمن صلى جمعة ببلد تعددت فيه الجمعة بحسب الحاجة ولم يعلم سبق جمعته أن يعيدها ظهرا، فلو سبقها جمعة في محل لا يجوز التعدد فيه فالصحيحة السابقة لاجتماع الشرائط فيها، واللاحقة باطلة……………..…الخ
( وفرائضها ثلاثة ) وهذا لا يخالف من عبر بالشروط كالجمهور، فإن الشروط ثمانية كما مر؛ إذ الفرض والشرط قد يجتمعان في أن كلا منهما لا بد منه:
الأول، وهو الشرط السادس: ( خطبتان ) لخبر الصحيحين عن ابن عمر كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة خطبتين يجلس بينهما وكونهما قبل الصلاة بالإجماع، إلا من شذ مع خبر صلوا كما رأيتموني أصلي ولم يصل صلى الله عليه وسلم إلا بعدهما ……. الخ
(و) الركن الثاني، وهو الشرط السابع: ( أن تصلى ركعتين ) بالإجماع، ومر أنها صلاة مستقلة، ليست ظهرا مقصورة.
والركن الثالث، وهو الشرط الثامن: أن تقع في ( الجماعة ) ولو في الركعة الأولى؛ لأنها لم تقع في عصر النبي صلى الله عليه وسلم والخلفاء الراشدين إلا کذلك.
وهل يشترط تقدم إحرام من تنعقد بهم لتصح لغيرهم أو لا؟ اشترط البغوي ذلك، ونقله في الكفاية عن القاضي، ورجح البلقيني الثاني، وقال الزركشي: إن الصواب أنه لا يشترط تقدم من ذكر، وهذا هو المعتمد. قال البلقيني: ولعل ما قاله القاضي أي ومن تبعه من عدم الصحة مبني على الوجه الذي قال: إنه القياس، وهو أنه لا تصح الجمعة خلف الصبي أو العبد أو المسافر إذا تم العدد بغيره، والأصح الصحة.
حاشية البجيرمي على الخطيب (5/ 362):
والركن الثالث، وهو الشرط الثامن: ( أن تقع في الجماعة ) ولو في الركعة الأولى……. الخ
الشرح:
قوله : ( ولو في الركعة الأولى ) فلو نووا كلهم المفارقة بعد الركعة الأولى وأتموا صلاتهم فرادى صحت جمعتهم وجمعة الإمام، خلافا لمن توهم فيه ويشترط استمرار صلاتهم على الصحة.
وعبارة عبد البر على التحرير : قوله "في الركعة الأولى" أي بتمامها بأن يستمر معه إلى السجود الثاني، فلو صلى الإمام بأربعين ركعة، ثم أحدث، فأتم كل منهم وحده أجزأتهم الجمعة؛ نعم يشترط بقاء العدد إلى سلام الجميع، فمتى أحدث منهم واحد لم تصح جمعة الباقين، أي إن أحدث قبل أن يصلي ركعته الثانية ا هـ .
فتح الباري - ابن حجر (2/ 422):
( قوله: باب إذا نفر الناس عن الإمام في صلاة الجمعة الخ ):
ظاهر الترجمة أن استمرار الجماعة الذين تنعقد بهم الجمعة إلى تمامها ليس بشرط في صحتها، بل الشرط أن تبقى منهم بقية ما، ولم يتعرض البخاري رحمه الله لعدد من تقوم بهم الجمعة؛ لأنه لم يثبت منه شيء على شرطه. وجملة ما للعلماء فيه خمسة عشر قولا:-
أحدها: تصح من الواحد، نقله ابن حزم. الثاني اثنان، كالجماعة، وهو قول النخعي وأهل الظاهر والحسن بن حي. الثالث اثنان مع الإمام عند أبي يوسف ومحمد. الرابع: ثلاثة معه عند أبي حنيفة. الخامس: سبعة عند عكرمة. السادس: تسعة عند ربيعة. السابع: اثنا عشر عنه في رواية. الثامن: مثله غير الإمام عند إسحاق. التاسع: عشرون في رواية ابن حبيب عن مالك. العاشر: ثلاثون كذلك. الحادي عشر: أربعون بالامام عند الشافعي. الثاني عشر: غير الإمام عنه، وبه قال عمر بن عبد العزيز وطائفة. الثالث عشر: خمسون عن أحمد في رواية، وحكى عن عمر بن عبد العزيز. الرابع عشر: ثمانون، حكاه المازري. الخامس عشر: جمع كثير بغير قيد، ولعل هذا الأخير أرجحها من حيث الدليل، ويمكن أن يزداد العدد باعتبار زيادة شرط، كالذكورة والحرية والبلوغ والإقامة والاستيطان، فيكمل بذلك عشرون قولا.
(4)العبارات المشتملة علی بیان المذهب الحنبلي:
المغني (2/ 171):
مسائل وفصول : شرائط وجوب الجمعة. مسألة : قال : وإذا لم يكن في القرية أربعون رجلا عقلاء لم تجب عليهم الجمعة. وجملته أن الجمعة إنما تجب بسبعة شرائط: إحداها: أن تكون في قرية، والثاني: أن يكونوا أربعين، والثالث: الذكورية، والرابع: البلوغ، والخامس: العقل، والسادس: الإسلام، والسابع: الاستيطان، وهذا قول أكثر أهل العلم.
فأما القرية فيعتبر أن تكون مبينة بما جرت العادة ببنائها به من حجر أو طين أو لبن أو قصب أو شجرة ونحوه، فأما أهل الخيام وبيوت الشعر والحركات فلا جمعة عليهم ولا تصح منهم؛ لأن ذلك لاينصب للاستيطان غالبا، وكذلك كانت قبائل العرب حول المدينة، فلم يقيموا جمعة ولا أمرهم بها النبي صلى الله عليه و سلم، ولو كان ذلك لم يخف ولم يترك نقله مع كثرتهم وعموم البلوى به، لكن إن كانوا مقيمين بموضع يسمعون النداء لزمهم السعي إليها، كأهل القرية الصغيرة إلى جانب المصر، ذكره القاضي. ويشترط في القرية أيضا أن تكون مجتمعة البناء بما جرت العادة في القرية الواحدة، فإن كانت متفرقة المنازل تفرقا لم تجر العادة به لم تجب عليهم الجمعة، إلا أن يجتمع منها ما يسكنه أربعون، فتجب الجمعة بهم ويتبعهم الباقون، ولا يشترط اتصال البنيان بعضه ببعض، وحكي عن الشافعي أنه شرط ولا يصح؛ لأن القرية المتقاربة قرية مبنية على ما جرت به عادة القرى، فأشبهت المتصلة. ومتى كانت القرية لا تجب الجمعة على أهلها بأنفسهم وكانوا بحيث يسمعون النداء من المصر أو من قرية تقام فيها الجمعة لزمهم السعي إليها؛ لعموم الآية.
فصل: فأما الإسلام والعقل والذكورية فلا خلاف في اشتراطها لوجوب الجمعة وانعقادها؛ لأن الإسلام والعقل شرطان للتكليف وصحة العبادة المحضة، والذكورية شرط لوجوب الجمعة وانعقادها؛ لأن الجمعة يجتمع لها الرجال، والمرأة ليست من أهل الحضور في مجامع الرجال، ولكنها تصح منها لصحة الجماعة منها فـ[إن النساء كن يصلين مع النبي صلى الله عليه و سلم في الجماعة]. وأما البلوغ فهو شرط أيضا لوجوب الجمعة وانعقادها في الصحيح من المذهب، وقول أكثر أهل العلم؛ لأنه من شرائط التكليف بدليل قوله عليه السلام: [رفع القلم عن ثلاثة: عن الصبي حتى يبلغ]، وذكر بعض أصحابنا في الصبي المميز رواية أخرى أنها واجبة عليه بناء على تكليفه، ولا معول عليه.
فصل : فأما الأربعون فالمشهور في المذهب أنه شرط لوجوب الجمعة وصحتها، وروي ذلك عن عمر بن عبد العزيز و عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، وهو مذهب مالك و الشافعي، وروي عن أحمد أنها لا تنعقد إلا بخمسين؛ لما روى أبو بكر النجاد عن عبد الله الرقاشي حدثنا رجاء بن سلمة حدثنا عباد بن عباد المهلبي عن جعفر بن الزبير عن القاسم عن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : [ تجب الجمعة على خمسين رجلا ولا تجب على ما دون ذلك ]، وبإسناده عن الزهري عن [ أبي سلمة قال : قلت لأبي هريرة: على كم تجب الجمعة من رجل ؟ قال: لما بلغ أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم خمسين جمع بهم رسول الله صلى الله عليه و سلم ]، وعن أحمد أنها تنعقد بثلاثة، وهو قول الأوزاعي و أبي ثور؛ لأنه يتناوله اسم الجمع، فانعقدت به الجماعة، كالأربعين، ولأن الله تعالى قال: { إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله }، وهذه صيغة الجمع، فيدخل فيه الثلاثة. وقال أبو حنيفة: تنعقد بأربعة؛ لأنه عدد يزيد على أقل الجمع المطلق، أشبه الأربعين، وقال ربيعة : تنعقد باثني عشر رجلا؛ لما روي [ عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه كتب إلى مصعب بن عمير بالمدينة فأمره أن يصلي الجمعة عند الزوال ركعتين وأن يخطب فيهما، فجمع مصعب بن عمير في بيت سعد بن خيثمة باثني عشر رجلا ]، وعن جابر قال : [ كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم يوم الجمعة فقدمت سويقة، فخرج الناس إليها، فلم يبق إلا اثنا عشر رجلا أنا فيهم، فأنزل الله تعالى : { وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما } إلى آخر الآية ]، رواه مسلم، وما يشترط للابتداء يشترط للاستدامة.
ولنا ما روى كعب بن مالك قال : أول من جمع بنا أسعد بن زرارة في هزم النبيت من حرة بني بياضة في نقيع يقال له نقيع الخضمات، قلت له: كم كنتم يومئذ ؟ قال: أربعون، رواه أبو داود و الأثرم. وروى خصيف عن عطاء عن جابر بن عبد الله قال : مضت السنة أن في كل أربعين فما فوقها جمعة، رواه الدارقطني، وضعفه ابن الجوزي، وقول الصحابي "مضت السنة" ينصرف إلى سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم. فأما من روى أنهم كانوا اثني عشر رجلا فلا يصح، فإن ما رويناه أصح منه، رواه أصحاب السنن. والخبر الآخر يحتمل أنهم عادوا، فحضروا القدر الواجب، ويحتمل أنهم عادوا قبل طول الفصل، فأما الثلاثة والأربعة فتحكم بالرأي فيما لا مدخل له فيه، فإن التقديرات بابها التوقيف، فلا مدخل للرأي فيها، ولا معنى لاشتراط كونه جمعا ولا للزيادة على الجمع؛ إذ لا نص في هذا ولا معنى نص، ولو كان الجمع كافيا فيه لاكتفى بالاثنين، فإن الجماعة تنعقد بهما.
فصل: فأما الاستيطان فهو شرط في قول أكثر أهل العلم، وهو الإقامة في قرية على الأوصاف المذكورة، لايظعنون عنها صيفا ولا شتاء، ولا تجب على مسافر ولا على مقيم في قرية يظعن أهلها عنها في الشتاء دون الصيف أو في بعض السنة، فإن خربت القرية أو بعضها وأهلها مقيمون بها عازمون على إصلاحها فحكمها باق في إقامة الجمعة بها، وإن عزموا على النقلة عنها لم تجب عليهم لعدم الاستيطان.
فصل: واختلف الرواية في شرطين آخرين، أحدهما الحرية، ونذكرها في موضعها إن شاء الله تعالى، والثاني إذن الإمام، والصحيح أنه ليس بشرط، وبه قال مالك و الشافعي و أبو ثور، والثاني هو شرط، روي ذلك عن الحسن و الأوزاعي و حبيب بن أبي ثابت و أبي حنيفة؛ لأنه لا يقيمها إلا الأئمة في كل عصر، فصار ذلك إجماعا. ولنا أن عليا صلى الجمعة بالناس وعثمان محصور، فلم ينكره أحد، وصوب ذلك عثمان وأمر بالصلاة معهم…… الخ
فصل: ولا يشترط للجمعة المصر، روي نحو ذلك عن ابن عمر و عمر بن عبد العزيز و الأوزاعي و الليث و مكحول و عكرمة و الشافعي………. الخ
وجملته أن ما كان شرطا لوجوب الجمعة فهو شرط لانعقادها، فمتى صلوا جمعة مع اختلال بعض شروطها لم يصح ولزمهم أن يصلوا ظهرا، ولا يعد في الأربعين الذين تنعقد بهم الجمعة من لا تجب عليه، ولا يعتبر اجتماع الشروط للصحة، بل تصح ممن لا تجب عليه تبعا لمن وجبت عليه، ولا يعتبر في وجوبها كونه ممن تنعقد به، فإنها تجب على من يسمع النداء من غير أهل المصر ولا تنعقد به.
فصل: ويعتبر استدامة الشروط في القدر الواجب من الخطبتين، وقال أبو حنيفة في رواية عنه: لا يشترط العدد فيهما؛ لأنه ذكر يتقدم الصلاة، فلم يشترط له العدد، كالأذان،ولنا أنه ذكر من شرائط الجمعة، فكان من شرطه العدد، كتكبيرة الإحرام، ويفارق الأذان، فإنه ليس بشرط وإنما مقصوده الإعلام، والإعلام للغائبين، والخطبة مقصودها التذكير والموعظة، وذلك إنما
يكون للحاضرين، وهي مشتقة من الخطاب، والخطاب إنما يكون للحاضرين، فعلى هذا إن انفضوا في أثناء الخطبة، ثم عادوا، فحضروا القدر الواجب أجزأهم، وإلالم يجزئهم، إلا أن يحضروا القدر الواجب، ثم ينفضوا ويعودوا قبل شروعه في الصلاة من غير طول الفصل، فإن طال الفصل لزمه إعادة الخطبة إن كان الوقت متسعا؛ لأنهم من أهل وجوب الجمعة، والوقت متسع لها؛ لتصح لهم الجمعة، وإن ضاق الوقت صلوا ظهرا، والمرجع في طول الفصل وقصره إلى العادة.
فصل: ويعتبر استدامة الشروط في جميع الصلاة، فإن نقص العدد قبل كمالها فظاهر كلام أحمد أنه لا يتمها جمعة، وهذا أحد قولي الشافعي؛ لأنه فقد بعض شرائط الصلاة، فأشبه فقد الطهارة……….. الخ
(5)العبارات المشتملة علی بیان حکم التلفیق:
رد المحتار (3/ 508):
(قوله: أن الحكم الملفق باطل بالإجماع) المراد بالحکم الحکم الوضعي، کالصحة. مثاله: متوضئ سال من بدنه دم و لمس امرأة، ثم صلی، فإن صحة هذه الصلاة ملفقة من مذهب الشافعي والحنفي، والتلفیق باطل، فصحته منتفیة اھ، ح.
أصول الإفتاء و آدابه للمفتي محمد تقي العثماني(216-207):
حکم التلفیق: الذي تلخص لي في موضوع التلفیق أن هذا الاصطلاح یقصد به في عامة کلام الفقهاء أن یختار مذهبان في مسألة واحدة بحیث تحدث منه حالة مرکبة لاتجوز في أحد المذهبین، مثل أن یأخذ المرأ بقول الحنفیة في عدم انتقاض الوضوء بمس المرأة، وبمذهب الشافعیة في عدمه بالدم السائل، ویصلي بعد ما مس امرأة و سال منه دم؛ فإن هذه الصلاة لاتصح في أحد من المذهبین…………..الخ
والذي یظهر – والله سبحانه أعلم – أن المنع من التلفیق هو الراجح؛ لأن الذي اتفق علیه الجمیع أن التلاعب بالمذاهب بالتشهي اتباع للهوی، وهو ممنوع بنص القرآن الکریم، قال الله سبحانه وتعالی: {فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ} [ص: 26]. ولئن فتح باب التلفیق بمصراعیه لأدی ذلك إلی اتباع الهوی وانحلال ربقة التکلیف. ولکن التلفیق الممنوع هو أن یختار الإنسان في قضیة واحدة مذهبین بما یؤدي إلی حالة لایجوزها أحد في تلك القضیة بخصوصها. فأما إذا اختار المرأ في مسئلة قولا بخلاف مذهبه، فلایجب علیه أن یلتزم بذلك المذهب في المسائل الأخری أیضًا. ومثاله الذي استدل به العلامة ابن فروخ رحمه الله تعالیٰ ما أفتی به کثیر من متأخري الحنفیة من جواز القضاء علی الغائب أخذا بقول الأئمة الثلاثة لمصلحة تبدو للقاضي. قال ابن عابدین رحمه الله تعالیٰ ناقلًا عن جامع الفصولین: ففي مثل هذا (أي في مواضع الحرج في إحضار الغائب) لو برهن على الغائب، وغلب على ظن القاضي أنه حق، لا تزوير ولا حيلة فيه، فينبغي أن يحكم عليه وله، وكذا للمفتي أن يفتي بجوازه دفعا للحرج والضرورات، وصيانة للحقوق عن الضياع، مع أنه مجتهد فيه، ذهب إليه الأئمة الثلاثة، وفيه روايتان عن أصحابنا، وينبغي أن ينصب عن الغائب وكيل يعرف أن يراعي جانب الغائب ولا يفرط في حقه ا هـ وأقره في نور العين. قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود: لا يجوز القضاء على الغائب، إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه، فحكم، فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اه. قلت: وظاهره ولو كان القاضي حنفيا، ولو في زماننا، ولا ينافي ما مر؛ لأن تجويز هذا للمصلحة والضرورة. (رد المحتار، کتاب القضاء، قبیل مطلب في المسخر:5/414).
وعلی هذا لو اختار القاضي مذهب الجمهور في القضاء علی الغائب، فلایجب علیه أن یلتزم بمذهبهم في جمیع القضایا، فلو قضی بالشفعة للجار مثلا، والمدعی علیه غائب، فلایؤدي ذلك إلی التلفیق الممنوع؛ لأن مسألة القضاء علی الغائب و مسألة الشفعة للجار مسئلتان مستقلتان من بابین، ولایلزم أنه إن أخذ بقول الشافعي رحمه الله تعالی في باب أن لایأخذ بمذهب الحنفیة في باب آخر. ویؤیده ما جاء في الهندیة عن الذخیرة: ونظیر هذا ما قلنا في من قضی بشهادة الفساق علی الغائب أو بشهادة رجل و امرأتین بالنکاح علی الغائب ینفذ قضاؤه، وإن کان من یجوز القضاء علی الغائب یقول: لیس للنسوان شهادة في باب النکاح، ولیس للفاسق شهادة أصلا، ولکن قیل: کل واحد من الفصلین مجتهد فیه، فینفذ القضاء من القاضي باجتهاده فيهما. (الفتاوی الهندیة، کتاب القضاء، الباب التاسع والعشرون في القضاء في المجتهدات:3/359). وهذا بخلاف من أخذ بمذهب الشافعیة في عدم انتقاض الوضوء بالدم السائل، وبمذهب الحنفیة بعدمه في مس المرأة، فإن المسئلتین من باب واحد، فلایعد متوضئا علی أحد من المذهبین.
وهذا ما جعله شیخ مشایخنا التهانوي رحمه الله تعالیٰ أعدل الأقوال في مسألة التلفیق حیث قال ما ترجمته: إن أعدل الأقوال من بین هذه الأقوال عندنا أن لایباح التلفیق في عمل واحد الذي هو خارق للإجماع. أما إذا کانا عملین مختلفین، فیباح التلفیق ولو لزم منه خرق للإجماع في الظاهر. فمن توضأ خلاف الترتیب لم یصح وضوءه عند الشافعیة، وإن مسح أقل من ربع الرأس في ذلك الوضوء لم یصح وضوءه عند الحنفیة، فإن توضأ خلاف الترتیب ومسح أقل من ربع الرأس لم یصح وضوءه عند أحد، وهذا تلفیق خارق للإجماع. ومن مسح أقل من ربع الرأس في الوضوء، ثم صلی خلف الإمام ولم یقرأ الفاتحة، فإنه وإن کان یلزم منه خرق الإجماع في الظاهر، حیث توضأ علی مذهب الشافعیة وصلی علی مذهب الحنفیة، ولکن بما أن الوضوء عمل، والصلوة عمل آخر، فإن هذا لیس من التلفیق الممنوع. (مقدمة الحیلة الناجزة للحلیلة العاجزة، حاشیة، ص:15).
وکذلك أفتی الإمام التهانوي رحمه الله تعالی بمذهب الحنفیة في ثبوت حرمة المصاهرۃ، وبمذهب المالکیة في جواز فسخ النکاح بجماعة المسلمین؛ لأنهما قضیتان مختلفتان، فلایلزم منه التلفیق الممنوع. والله سبحانه أعلم وعلمه أتم وأحکم.
(6)العبارات الدالة علی جواز القول بعدم لزوم القضاء:
رد المحتار (1/75):
وقال (العلامة الشرنبلالي رحمه الله تعالیٰ في عقد الفرید) أیضا: إن له التقلید بعد العمل، کما إذا صلی ظانًا صحتها علی مذهبه، ثم تبین بطلانها في مذهبه وصحتها علی مذهب غیره فله تقلیده، ویجتزئ بتلك الصلاة علی ما قال في البزازیة: إنه روي عن أبي یوسف أنه صلى يوم الجمعة مغتسلاً من الحمام، ثم أخبر بوجود فأرة ميتة في بئر الحمام، فقال: نأخذ بقول إخواننا من أهل المدينة إذا بلغ الماء قلتين لم يحمل خبثاً،اه.
الفتاوى البزازية (2/ 9):
وروى عن الإمام الثاني أنه صلى يوم الجمعة مغتسلاً من الحمام وصلى بالناس، وتفرقوا، ثم أخبر بوجود فأرة ميتة في الحمام، فقال: إنا نأخذ بقول إخواننا من أهل المدينة "إذا بلغ الماء قلتين لم يحمل خبثاً".
الفتاوی التاتارخانیة (2/ 253-252):
2339: وذکر السید الإمام أبو القاسم السمرقندي رحمه الله في کتاب الملتقط: إذا وقعت صلاة الإمام فاسدة، ینبغي أن یخبر الناس الذین صلوا خلفه؛ لیعیدوا صلاتهم. فإن غابوا یکتب إلیهم أو یرسل إلیهم من یأمرهم بذلك؛ لیخرج هو و هم من العهدة، إلا إذا کان في فصل مجتهد فیه، جاز أن یأخذ في تلك الصلاة بقول من یقول بالجواز.
2240: کما حکي أن أبا یوسف رحمه الله اغتسل یوم الجمعة وصلی ببغداد، فوجدوا في تلك البئر فارة میتة، فأخبر بذلك، فقال: نأخذ بقول إخواننا من أهل المدینة تمسکا بالحدیث المروي عن النبي علیه السلام أنه قال: إذا بلغ الماء قلتین لایحتمل خبثا.
2341: أما إذا کان الفساد بأمر حتم، یأمر الناس بالإعادة. روی عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه: أصابته الجنابة، فخفي ذلك علیه حتی صلی، ثم تذکر، فأمر منادیا ینادي في المدینة: ألا! إن الأمیر صلی وهو جنب، فمن صلی خلفه فلیعد الصلاة.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
7/رجب المرجب/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |