86212 | جائز و ناجائزامور کا بیان | کھیل،گانے اور تصویر کےاحکام |
سوال
السلام علیکم !کیا فرماتے ہیں کہ مفتیان کرام !اس مسئلے کے بارے میں آج کل اے آئی کا دور ہے اور مختلف قسم کی تصاویر بنائی جاتی ہے ،ایک قسم کی ایسی تصاویر کی وڈیو بنائی جاتی ہے کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اس کو( ہائیبرڈ اینیمل) کہا جاتا ہے،مثلا ایک طرف ایک جانور کی تصویر ہے مثلا گائے،دوسری طرف دوسری جانور کی تصوریر ہے مثلا بکری،دونوں کوہائیبرڈ اورملایا جاتا ہے تو ایک خاص تصوریر بن جاتی ہے،آدھی گائے اور آدھی بکری،اسی طرح انسان کی تصویرکےساتھ شیروغیرہ کی تصویرملائی جاتی ہے۔سوال کو سمجھنے کے لیے یوٹیوب پر سرچ کریں تو بہت سے ایسےچینلز ہیں جو یہ کام کررہے ہیں ،کیا ایسا کنٹیٹ بنانا جائز ہے؟ بینوا توجروا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اےآئی کے ذریعے بنوائی گئی ہروہ ڈیجیٹل تصویرجائز ہے جو کہ درج ذیل شرائط پر پوری اترتی ہو:
- شرعاً اس کو دیکھنا جائز ہو یعنی فحش یا خواتین کی تصویر نہ ہو۔
- ان میں کسی انسان کی توہین نہ ہو۔
- کوئی جائز اور ضروری مقصد پیش نظر ہو۔
لہذا اےآئی پرتصاویر بنوانےکےلیےاگر مذکورہ شرائط کی رعایت ہےتو بناناجائز ہے ورنہ اس سے اجتناب لازم ہے۔
حوالہ جات
قال الشیخ محمد تقی العثمانی دامت برکاتہم العالیۃ: أما التلفزیون والفدیو فلا شك فی حرمۃ استعمالہما بالنظر إلی ما یشتملان علیہ (الی قولہ) أما الصورۃ التی لیس لھا ثبات واستقرار ولیست منقوشۃ علی شئی بصفۃ دائمۃ فإنہا بالظل أشبہ منھا بالصورۃ ویبدو أن صورۃ التلفزیون والفدیو لا یستقر علی شییٗ فی مرحلۃ من المراحل.(تکملہ فتح الملہم :164/4)
قال العلامة یوسف القرضاوي رحمه الله:فھذہ العملیۃ ،عملیۃ حبس الظل أو عکسہ ، لیس کما یفعل النحات أو الرسام ، و لذا فھو لا یدخل في الحرمۃ و إنما ھو مباح . ھذا التصویر کما ذکرت (التصویر بالکامیرا )لا شيء فیہ ،بشرط أن تکون الصورۃ نفسھا التي یلتقطھا أو یعکسھا حلالا. فلا یصور امرأۃ عاریۃ أو شبہ عاریۃ أو مناظر لا تجوز شرعا .
محمدادریس
دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی
/5رجب المرجب1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن غلام محمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |