03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قانونی طور پر ممنوعہ پرندوں کی خرید وفروخت کا حکم
86242جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گزارش ہے کہ میرا پرندے بیچنے کا کام ہے اور میں مختلف قسم کے پرندے فروخت کرتا ہوں،ان میں کچھ ایسے پرندے بھی ہوتے ہیں جن کی خریدو فروخت پر پابندی لگانے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے تاکہ قدرتی حیات کو تحفظ دیا جاسکے(جبکہ اصل صورتِ حال اس سے مختلف ہے اس لئے کہ بعض ایسے پرندوں پر پابندی لگا دی گئی ہے جو پاکستان میں نہیں ہوتے بلکہ بیرون ملک سے منگواۓ جاتے ہیں)لیکن یہ نوٹس ایسا نہیں کہ باقاعدہ عدالت کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا ہو،اب صورت ِ حال یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کے پرندوں کی خریدوفروخت کرتے ہیں انہیں حکومتی اداروں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ ہمیں منتھلی (یعنی بطورِرشوت پیسے) دیتے رہیں اور یہ کاروبار کرتے رہیں آپ پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جائیگی،لیکن اگر پیسے نہیں دیں گے تو ہم آپ کا سارامال ضبط کر لیں گے،بیان کردہ پابندی کے پیشِ نظر حکومتی اداروں کو رشوت دینے کے بغیرکاروبار کرنا مشکل ہے۔ صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ کاروبار پر پابندی ہونے کے باوجود رشوت دیکر یہ کاروبار کرنا کیسا ہے؟ مذکورہ پابندی کی نوعیت سامنے رکھتے ہوئے ایسے پرندوں کا کاروبار کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ مستفتی محمد ارسلان 03256312484

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جن پرندوں کی خرید وفروخت قانونی طور  پر ممنوعہ ہو تو ان کی خریدوفروخت کرنا شرعا  بھی جائز نہیںکیونکہ  جائز امور میں حکومت کی قوانین  پر عمل کرنا ضروری ہے ،البتہ  اگر کوئی شخص  حکومتی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے پرندوں کی خرید و فروخت کرتا ہے جن کی اجازت نہیں ہے  تو اس کی کمائی تو حلال ہوگی  ،لیکن حکومتی حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ جہاں تک رشوت کا تعلق ہے تو یہ بہت بڑا گنا ہ ہے اور  شریعت مطہرہ نے  رشوت  کے لین ودین  اور اس کام میں ملوث تمام افراد (رشوت دینے والا ،رشوت لینے والا اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے )کو گناہگار ،ملعون اور جہنمی قرار دیا ہے۔ ناجائز کام کی صورت میں رشوت کا موقع آپ خود پیدا کر رہے ہیں لہذا اس صورت میں رشوت  دینے کا گناہ بھی ہوگا ۔ہاں جائز  کام کے دوران اگر سرکاری اہل کار رکاوٹ ڈالیں اور رشوت کا مطالبہ ہو تو دینے میں گناہ  نہیں ہوتا ،لینے میں بہرحال حرام اور گناہ ہوتا ہے ۔ 

حوالہ جات

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله، ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني وإنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه. متفق عليه.
   قال الملاعلي القاري  في شرحه :(ومن يطع الأمير) ظاهره الإطلاق ويمكن أن يكون التقدير: أميري (فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني) في الحديث دلالة على صحة الخلافة والنيابة قيل: كانت قريش ومن يليهم من العرب لا يعرفون الإمارة ولا يدينون لغير رؤساء قبائلهم، فلما جاء الإسلام وولي عليهم الأمراء أنكرته نفوسهم وامتنع بعضهم من الطاعة، فقال لهم صلى الله عليه وسلم ليعلمهم أن طاعتهم مربوطة بطاعته وعصيانهم منوطة بعصيانه ليطيعوا من ولي عليهم من الأمراء.
( وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:6/ 2391)
من حديث  ثوبان، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي ‌والمرتشي والرائش: يعني: الذي يمشي بينهما. (مسند أحمد:37/ 85)
 ( صح بيع كل ذي ناب أو مخلب ) كالكلب والفهد والسباع والطيور والجوارح علمت أو لا ؛ لأنه مال متقوم.( درر الحكام شرح غرر الأحكام : 2/ 198)
(والفهد، والسباع، والطيور)؛ لأنها حيوان يجوز الانتفاع بها شرعا وتقبل التعليم عادة فجاز بيعها، والحق أن كل منتفع به شرعا في الحال، أو في المآل وله قيمة نحو الجحش، والطفل جاز بيعه، وإلا فلا والهر يجوز بيعه ؛ لأنه منتفع به وكل ذي ناب من السباع وذي مخلب من الطيور يجوز بيعه.
( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (4/ 126)
وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد....وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط ... (رد المحتار (362/ 5):
وفي الخانية الرشوة على وجوه أربعة منها ما هو حرام من الجانبين، وذلك في موضعين: أحدهما إذا تقلد القضاء بالرشوة حرم على القاضي والآخذ وفي صلح المعراج تجوز المصانعة للأوصياء في أموال اليتامى، وبه يفتى ثم قال من الرشوة المحرمة على الآخذ دون الدافع ما يأخذه الشاعر وفي وصايا الخانية قالوا بذل المال لاستخلاص حق له على آخر رشوة. الثاني إذا دفع الرشوة إلى القاضي ليقضي له حرم من الجانبين سواء كان القضاء بحق أو بغير حق، ومنها إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع..... (البحر الرائق شرح كنز الدقائق (285/ 6)

عبدالوحید طاہر
دارالافتاءجامعہ الرشید  ،کراچی
۷رجب المرجب  ۱۴۴۶ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالوحید بن محمد طاہر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب