03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھانجی کو زکاۃ دینے کاحکم
86243زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

السلام عليكم ورحمةالله. ميرا سوال هے میری بھانجی صاحب نصاب نہیں ہے۔ جاب کرتی ہے اور خود پر اور بچوں پر خرچ کرتی ہے اس میں پارلر جانا میک اپ کروانا بال مہنگے پارلر سے ڈائی کروانا بھی شامل ہے شادیوں پر 25000 تنخواہ ہے اس کی ۔ اس کا کھا نا پینا اور اخراجات بھی سسرال کی طرف سے ہو جاتےہیں جو کہ کافی ہیں زندہ رہنے کے لیے۔ میری بہن چاہتی ہیں کہ میں بھانجی کو زکاة دوں تاکہ جہیز کا سامان فریج واشنگ مشین سے لر کر ہر چیز جو کہ گھر میں ہونی چاہیے اس کے زریعے وہ خرید کر اسے دے سکے جب میری بھانجی کا گھرسسرالی مکمل ہو جائے جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔۔ میری بھانجی نے گھر سے بھگ کر شادی کی تھی جس کی وجہ سے اس کو میری بہن جھیز کا سامان نہیں دے سکی تھی تو اس طرح سے میری بھانجی کو تمام چیزیں مل جایئں جو جہیز میں دی جاتی ہیں اور سسرال کے لعن طعن سے بھی بچ جائے وہ۔ میری بھانجی اپنے سسرال والوں کے ساتھ ہی رہتی ہے اور ان کی ہی چیزیں استعمال کرتی ہے۔ زکاة كے پیسے اس کو دینا ضحیح ہو گا یا نہیں جبکہ اس سے زیادہ مستحق لوگ موجود ہیں ۔ رہنمائی فرمائیں

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کی بھانجی اگر زکاۃ کی مستحق ہو یعنی اس کی ملکیت میں بنیادی ضرور یا ت:نقدی یاسونا چاندی یا ضرورت سے زائد نصاب کی مالیت کے بقدر سامان نہ ہو تو اس کو زکاۃ دینا جائز ہے ۔البتہ کسی آدمی کو یکمشت اتنی نقدی یا سامان دینا مکروہ ہے جس سے وہ زکاۃ کے نصاب کا مالک  بن جائے اس سے کم رقم دینی چاہیے ۔ 

حوالہ جات

وفي مصنف ابن أبي شيبة (2/ 413 )
عن عمها سلمان بن عامر الضبي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الصدقة على غير ذي الرحم صدقة، وعلى ذي الرحم اثنتان صدقة وصلة.
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."( بدائع الصنائع: 2/50)
لا ‌يجوز ‌دفع ‌الزكاة ‌إلى ‌من ‌يملك ‌نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي.(الفتاوى الهندية/1: 189)
والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات  ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج. (الفتاوى الهندية :1/ 190)
وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلةوصدقة .
وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب. (ردالمحتار : 346/2)

عبدالوحید طاہر
    دارالافتاءجامعہ الرشید  ،کراچی
    ۷رجب المرجب ۱۴۴۶ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالوحید بن محمد طاہر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب