86354 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
اگرکسی علاقہ میں مکان کا معروف کرایہ مثلاً بیس ہزار ہو،جس میں معمولی کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے، مالک مکان کرایہ دار سے ایڈوانس رقم کا مطالبہ کرتا ہے،تاکہ یوٹیلٹی بلز یا کسی قسم کے نقصان کی تلافی جمع شدہ ایڈوانس رقم سے کی جا سکے،یہ بھی تقریباً ہر علاقے کی نوعیت کے اعتبار سے کرایہ کی طرح معروف ہوتا ہے،معمولی کمی بیشی اس میں بھی پائی جاتی ہے۔ کرایہ کی مد میں ہو یا ایڈوانس کی مد میں دونوں صورتوں میں معمولی کمی بیشی عاقدین کی رضامندی سے طے ہو جاتی ہے، جس سے نزاع واختلاف کا خدشہ بھی عموماً باقی نہیں رہتا،اس صورتِ حال کے کو مدِ نظر رکھ کر اب پوچھنا یہ ہے کہ مالک مکان کرایہ دار سے یہ کہے کہ: اگر تم ایڈوانس کرایہ ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ دیتے ہو، تو معروف کرایہ سے کم کرایہ آپ سے طے کر وں گا،مثلاً معروف کرایہ دس ہزار ہے ، زیادہ ایڈوانس کی وجہ سے پانچ یا سات ہزار کرایہ پر مکان دے دوں گا،تو کیا ایسا کرنا شبہ ربا کے زمرے میں آئے گا، اور ناجائز ہو گا یا یہ صورت جائز ہوگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ مالک مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا شرعاً جائز ہے اور اس رقم کی حیثیت قرض کی ہو تی ہے ۔لہذا زیادہ ایڈوانس کی وجہ سے کرایہ میں کمی سود کے زمرے میں آتی ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن الھمام رحمه الله تعالى: وأحسن ما هنا ما عن الصحابة والسلف ما رواه ابن أبي شيبة في مصنفه: حدثنا خالد الأحمر عن حجاج عن عطاء قال: كانوا يكرهون كل قرض جر منفعة.( فتح القدير للكمال ابن الهمام : 7/ 251)
قال العلامة علی السغدی رحمه الله تعالى: الربا في القروض،فأما في القروض فهو على وجهين،احدها أن يقرض عشرة دراهم باحد عشر درهما أو باثني عشر ونحوها، والآخر أن يجر إلى نفسه منفعة بذلك القرض، أو تجر اليه وهو أن يبيعه المستقرض شيئا بارخص مما يباع ،أو يؤجره أو يهبه أو يضيفه أو يتصدق عليه بصدقة أو يعمل له عملا يعينه على أموره أو يعيره عارية أو يشتري منه شيئا بأغلى مما يشتري أو يستأجر إجارة باكثر مما يستأجر ونحوها ،ولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فإن ذلك ربا وعلى ذلك قول ابراهيم النخعي: كل دين جر منفعة لا خير فيه. (النتف فی الفتاوی: 1/484)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه.وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطا صار قرضا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربا لا يظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح. (الدر المختار مع رد المحتار: 5/166)
محمد مجاہد
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
/10رجب المرجب،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مجاہد بن شیر حسن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |