03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کورٹ میرج کا حکم
86314نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

ہم اپنی کنواری بیٹی کی شادی میں حائل رکاوٹ کے سلسلے میں ایک صحیح العقید پیر صاحب (جو خود امریکہ میں ہوتے ہیں) کے کراچی میں متعین کردہ شخص کے پاس گئے، جو عامل ہے اور تعویذ گنڈا کے کام پر مامور ہے۔ انہوں نے بہت ساری تعویذات اور وظائف دئیے اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ حاضر ہونے کا کہا، تاہم ان کی باتیں، کام اور انداز ہمیں بالکل پسند نہیں آیا، اس لیے ہم نے دوبارہ ملاقات نہیں کی۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے فون کر کے پیغام دیا کہ آپ کی لڑکی کے لیے میرے پاس ایک رشتہ ہے، آپ کو میرے ساتھ کیماڑی میں ایک پیر صاحب سے ملاقات کرنی ہوگی؛ کیونکہ لڑکا پیر صاحب کا خاص معتقد ہے، میں نہ چاہتے ہوئے اس کے ساتھ گیا، کافی دیر بعد پیر صاحب متوجہ ہوئے اور اشارہ، کنایہ میں کسی شادی شدہ شخص کے لیے میری بیٹی کے رشتہ کا ذکر کیا، میں نے بالکل واضح الفاظ میں کہا کہ ہم نے ایسا کبھی سوچا تک نہیں ہے، نہ ہی میں کسی شادی شدہ اہل و عیال والے شخص کے نکاح میں میں اپنی لڑکی دوں گا؛ کیونکہ میری بیٹی کنواری بھی ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی، میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد میں وہاں سے آگیا، لیکن ہم نے اپنی بیٹی کے اندر واضح تبدیلی محسوس کی، اس کو دورے پڑنے لگے، بے ہوش ہونے لگی، شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر کہتی ہے کہ مجھے اس عامل بابا سے ملواؤ، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ سب کچھ اس شخص کی دی ہوئی تعویذات اور وظائف کے بعد ہوا ہے۔ ہم شدید پریشانی میں مبتلا ہوگئے، اس نے یقینا میری بیٹی پر کوئی عمل کر کے اس کے دل و دماغ کو قابو کیا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، ایک دن پولیس نے ہم بوڑھے میاں بیوی اور ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کو گرفتار کیا اور الگ الگ تھانوں میں بند کردیا، تھانہ میں جا کر معلوم ہوا کہ میری بیٹی اور اس شخص نے نکاح کرلیا ہے اور ہم نے اس کی بیوی کو حبسِ بے جا میں رکھا ہے، اس لیے ہمیں گرفتار کیا گیا ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سارے الزامات لگائے گئے۔ لڑکی نے نکاح کی تصدیق کی ہے۔ پھر ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے فریقین کی بات سننے کے بعد اس کے تمام الزامات کو جھوٹ قرار دے کر لڑکی کو ہمارے حوالے کردیا اور ہمیں گھر جانے کی اجازت دیدی۔ واضح رہے کہ مذکورہ شخص کے پسِ منظر سے ہم بالکل واقف نہیں، وہ شادی شدہ اور تین چار بچوں کا باپ ہے، بد دیانت اور جھوٹا شخص ہے، بڑے بڑے مفتیانِ کرام اور پیروں سے تعلق جوڑ کر اور اپنی شکل و صورت مولویوں والی بنا کر بد عقیدہ جاہل عاملوں والی حرکتیں کرتا ہے، علمائے حق کے لیے بدنامی کا سبب ہے، ہمیں ناجائز طور پر پریشان کر رکھا ہے، اس کی بد دیانتی اور دھوکہ بازی ثابت ہونے پر پیر صاحب نے اس کو کام سے بھی برخاست کردیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس شخص کا ہماری بیٹی سے کیا ہوا نکاح کفو کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟ کفو کے اعتبار سے اس کا نکاح منعقد ہوا ہے یا نہیں؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ میری بیٹی نے اس شخص کے ساتھ نکاح کورٹ میں کیا ہے، ابھی بیٹی ہمارے گھر ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، لیکن ہم برمی ہیں اور وہ شخص پٹھان ہے۔ میری بیٹی کنواری ہے، جبکہ وہ شادی شدہ اور تین چار بچوں کا باپ ہے۔ وہ تعویذ گنڈے کرتا تھا، لیکن یہ فراڈ کرنے کے بعد جس مفتی صاحب نے اس کو آستانہ پر بٹھایا تھا، انہوں نے وہاں سے برخاست کردیا ہے۔ وہ درسِ نظامی پڑھا ہوا ہے، لیکن اس کا کردار ٹھیک نہیں اور علم پر عمل نہیں، ہمارے ساتھ اس طرح کا فراڈ کیا ہے۔ میرا پیشہ معلم کا ہے، میری بیٹی بھی معلمہ ہے، یونیورسٹی بھی پڑھی ہوئی ہے، ہماری مالی حیثیت ان سے اچھی ہے۔ میری بیٹی پہلے تو اس کے پاس جانے کا کہتی تھی، لیکن جب اس نے ہم سب کو جیل میں ڈالا تو اب وہ بھی اس سے متنفر ہوگئی ہے۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں لڑکی کو اپنے ولی (والد اور بھائیوں وغیرہ) کی اجازت اور سرپرستی میں نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرم وحیاء کے خلاف ہے اور اکثر دنیوی نقصانات کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی عاقلہ بالغہ لڑکی اس طرح کرلے اور لڑکا لڑکی کا کفؤ ہو تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے، لیکن اگر وہ اس کا کفؤ نہ ہو تو پھر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ صورتِ مسئولہ میں صرف آپ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں قطعی فیصلہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کی بیٹی کا کفؤ ہے یا نہیں۔ اصولی جواب یہ ہے کہ اگر وہ آپ کی بیٹی کا کفؤ ہے، یعنی دینداری، خاندانی شرافت، پیشہ اور مالی حیثیت میں اس کے ہم پلہ ہے اور نکاح دو گواہوں کے سامنے ہوا ہے تو یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا ہے۔ لیکن اگر وہ مندرجہ بالا امور میں سے کسی میں آپ کی بیٹی سے کم  ہے تو پھر یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ہے۔

حوالہ جات

الهداية (1/ 200):

فصل في الكفاءة : الكفاءة في النكاح معتبرة، قال عليه الصلاة والسلام: ألا لا يزوج النساء إلا الأولياء ولا يزوجن إلا من الأكفاء، ولأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة؛ لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش، فلا تغيظه دناءة الفراش. وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما دفعا لضرر العار عن أنفسهم.

الدر المختار (3/ 90):

( وتعتبر ) الكفاءة للزوم النكاح خلافا لمالك ( نسبا…… ( و ) تعتبر في العرب والعجم ( ديانة ) ….. ( ومالا ) بأن يقدر على المعجل ونفقة شهر لو غير محترف، وإلا فإن كان يكتسب كل يوم كفايتها لو تطيق الجماع ( وحرفة ) فمثل حائك غير كفء لمثل خياط ولا خياط لبزاز وتاجر ولا هما لعالم وقاض.

حاشية ابن عابدين (3/ 90):

قوله ( بأن يقدر على المعجل الخ ) أي على ما تعارفوا تعجيله من المهر وإن كان كله حالا  فتح ، فلا تشترط القدرة على الكل ولا أن يساويها في الغنى في ظاهر الرواية وهو الصحيح، زيلعي.

الدر المختار (3/ 56):

( ويفتى ) في غير الكفء بعدم جوازه أصلا ) وهو المختار للفتوى ( لفساد الزمان).

حاشية ابن عابدين (3/ 57):

قوله ( بعدم جوازه أصلا ) هذه رواية الحسن عن أبي حنيفة …… قوله ( وهو المختار للفتوى) وقال شمس الأئمة: وهذا أقرب إلى الاحتياط، كذا في تصحيح العلامة قاسم؛ لأنه ليس كل ولي يحسن المرافعة والخصومة، ولا كل قاض يعدل، ولو أحسن الولي وعدل القاضي فقد يترك أنفة للتردد على أبواب الحكام واستثقالا لنفس الخصومات، فيتقرر الضرر، فكان منعه دفعا له، فتح.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     10/رجب المرجب/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب