86414 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
ہم دو بھائی اور والد صاحب ہیں، اور ہم والد صاحب کے گھر میں اکٹھے رہتےہیں۔ میں نے سعودی عرب میں 8 سال تک محنت مزدوری کی، جس دوران پہلے 3 سال والد صاحب کا قرض ادا کیا اور بعد کے سالوں میں دیگر رشتہ داروں کا قرض ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، میں نے گھر والوں کی خدمت بھی جاری رکھی،اس کے بعد ایک کاروبار میں حصہ لیا اور باقی سالوں کی ذاتی کمائی اس کاروبار میں لگائی۔ اب میں سات سالوں سے اس کاروبار کو چلا رہا ہوں ۔ کاروبار شروع کرتے وقت والد صاحب نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں۔ اس وقت والد صاحب اور بھائی کے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھااور نہ بڑے بھائی کی ذاتی کمائی اس کاروبار میں شامل ہوئی ۔ لیکن اب والد صاحب کہتے ہیں بھائی کو کاروبار میں حصہ دو کیونکہ اس نے کاروبار کی نگرانی کی ہے ،جبکہ وہ بطور ملازم کام کرتے تھے اور اس کام کی تنخواہ بھی انہوں نے وصول کی ہے ۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کچھ رقم ادھار لے کر اس کاروبار میں دی تھی جو کہ میں نے واپس بھی کر دی ہے ۔ والد صاحب کہتے ہیں میں نے 4 لاکھ کی زمین بیچ کر اس رقم کو کاروبار میں دیا تھا ،جبکہ والد صاحب نے 4 لاکھ واپس لے کر دوسرے بھائی کو دوکان کے لیے دیے تھے ۔والد صاحب الحمدللہ صاحب ثروت ہیں، لیکن اب والد صاحب بڑے بھائی کو کاروبار میں زبردستی شریک کرنا چاہتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ بیٹے کا مال والد کا ہوتا ہے اور والد اجازت کے بغیر دوسرے بھائی کو شریک کرسکتا ہے۔ والد صاحب حدیثیں بیان کرتے ہیں ۔اس لیے کیا سب کچھ والد کا شمار ہوگا؟ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بطور تمہید واضح ہو کہ ا گر والد غریب ہو اور اپنی بیٹے کے مال کا محتاج ہوتو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لےکر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اس میں بیٹے سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اور حدیث میں وارد’’أنت و مالك لأبیك‘‘ (تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے) کی تشریح بھی محدثین نے یہی فرمائی ہے؛ لہذا والد مطلقاً اپنے بیٹے کے مال کا مالک نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ذاتی ضرورت کے ساتھ مقید ہے؛اس لیے والد اپنے خرچے کے علاوہ اپنے بیٹے کا مال اس کی اجازت کے بغیر نہ استعمال کرسکتا ہے اور نہ کسی کو بطورِ ہدیہ دے سکتا ہے۔ البتہ والد کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا تقاضا یہ ہے کہ بیٹازندگی بھر حسب استطاعت خود سے والد پر اپنا مال خرچ کرتارہے اور ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتارہے ،بوڑھے والدکو اپنی گھریلو ضروریات کے لیے بیٹے سے مانگنے کی نوبت نہ آنے دے اور اگر وہ کوئی جائز، معقول اور قابلِ برداشت تصرف کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت بھی دیں تاکہ وہ تنگی محسوس نہ کریں،تاہم یہ اجازت دینا واجب نہیں ہے۔والد کو بھی چاہیے کہ وہ بیٹے کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے،سختی نہ کرے ،اس کے اموال کو اپنی ذاتی ملک نہ سمجھے،جائز حد تک اس کواس میں آزادی دے ،بلاضرورت خود ان کے اموال میں تصرف نہ کرے، اورفضول خرچی نہ کرے ۔ (ماخوذ از تبویب: 81295)
صورت مسئولہ میں اگر آپ کا بیان واقع کے مطابق ہے اور کاروبار شروع کرنے سے پہلے والد صاحب نے صراحتا یہ بات کہی تھی کہ ’’میں آپ کے ساتھ کاروبار میں شریک نہیں ہوں ‘‘ تو اس کاروبار کے مالک صرف آپ ہی ہیں ۔آپ کو حق حاصل ہے کہ جس کو چاہیں شریک کریں ۔والد صاحب کی جانب سے بڑے بھائی کو کاروبار میں شریک کرنے کا مطالبہ شرعا جائز نہیں۔اسی طرح چونکہ آپ کے بھائی نے کاروبار میں کوئی سرمایہ نہیں لگایا تھا اور نہ شرکت کا باقاعدہ عقد ہوا ہے ،نیز وہ بطور ملاز م کام کرنے کی اجرت وصول کر چکے ہیں تو اب صرف نگرانی کی بنیاد پر کاروبار میں شرکت کا مطالبہ درست نہیں۔
حوالہ جات
البقرة( 2: 215):
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ o
حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 43):
وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء.
التيسير بشرح الجامع الصغير (2/ 210):
(عن أبي هريرة كل أحد أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين) لا يناقضه أنت ومالك لأبيك لأن معناه إذا احتاج لماله أخذه لا أنه يباح له ماله مطلقا.
شرح سنن الترمذي (20/ 262):
وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 30):
وروي عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - أن «رجلًا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أبوه، فقال: يا رسول الله إن لي مالًا، وإن لي أبًا وله مال، وإن أبي يريد أن يأخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت ومالك لأبيك»، أضاف مال الابن إلى الأب؛ فاللام للتمليك، وظاهره يقتضي أن يكون للأب في مال ابنه حقيقة الملك، فإن لم تثبت الحقيقة فلاأقل من أن يثبت له حق التمليك عند الحاجة.وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أطيب ما يأكل الرجل من كسبه، وإن ولده من كسبه؛ فكلوا من كسب أولادكم إذا احتجتم إليه بالمعروف»، والحديث حجة بأوله وآخره، أما بآخره فظاهر؛ لأنه صلى الله عليه وسلم أطلق للأب الأكل من كسب ولده إذا احتاج إليه مطلقًا عن شرط الإذن والعوض؛ فوجب القول به.وأما بأوِّله فلأن معنى قوله: "وإن ولده من كسبه" أي: كسب ولده من كسبه؛ لأنه جعل كسب الرجل أطيب المأكول، والمأكول كسبه لا نفسه، وإذا كان كسب ولده كسبه كانت نفقته فيه؛ لأن نفقة الإنسان في كسبه؛ ولأن ولده لما كان من كسبه؛ كان كسب ولده ككسبه، وكسب كسب الإنسان كسبه، ككسب عبده المأذون فكانت نفقته فيه.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 340):
شركة العقد عبارة عن عقد شركة بين اثنين أو أكثر على كون رأس المال والربح مشتركا بينهم.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
14/رجب /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |