86365 | خرید و فروخت کے احکام | خریدی ہوئی چیز میں خرابی )عیب( نکلنے کے متعلق احکام |
سوال
ایک شخص نے کسی کو زمین بیچی پھر گورنمنٹ نے روڈ کے لیے کچھ حصہ قبضہ کیا اس کا حکم کیاہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
گورنمنٹ کی جانب سے کسی زمین کو قبضے پر لینے کےاعلان سے بالعموم قیمتیں گرتی ہیں ،لہذااگر گورنمنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہوچکا ہو کہ وہ مخصوص زمین کو اپنی تحویل میں لے گی۔ اس کے بعد بیچنے والے نے خریدار کو اس اعلان کی اطلاع دیے بغیر اسی زمین کو اعلان سے پہلے والی قیمت پر بیچ دیا ،تو گورنمنٹ کے قبضے سے پہلے عدالت کے ذریعے اصل مالک کو واپس کرنے کی اجازت ہے ،اگر قبضہ ہوچکا ہو تو نئی اور پرانی قیمت میں فرق مانگا جاسکتاہے ۔
البتہ اگر گورنمنٹ کے اعلان سے پہلے خریداری ہوچکی تھی ، تو پھر زمین کی حوالگی کے وقت بیع کا معاملہ مکمل اور اختتام پذیر تصور کیا جائے گا، اور گورنمنٹ کے قبضہ سے سابقہ بیع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ المفتی محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ :أما الشراء الجبري من قبل الحكومة لضرورة أو حاجة عامة، فيستدل على جوازه بما أخرجه الترمذي عن عقبة بن عامر رضي الله تعالى عنه قال:قلت: يا رسول الله، إنا نمر يقوم، فلا لهم يضيفونا، ولا هم يؤدون ما لنا عليهم من الحق، ولا نحن نأخذ منهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أبوا إلا أن تأخذوا كرها فَخُذُوا .
وقال الإمام الترمذي رحمه الله تعالى في شرح هذا الحديث:
وإنما معنى هذا الحديث: أنهم كانوا يخرجون في الغرو، فيمرون يقوم، ولا يجدون من الطعام ما يشترون بالثمن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن أبوا أن يبيعوا إلا أن تأخذوا كرهاً فخذوا. هكذا روي في بعض الحديث مفسراً، وقد روي عن عمر بن الخطاب أنه كان يأمر بنحو هذا .(فقہ البیوع :235/1)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :(قوله ويجب رد عين المغصوب) لقوله عليه الصلاة والسلام :على اليد ما أخذت حتى ترد.ولقوله عليه الصلاة والسلام :لا يحل لأحدكم أن يأخذ مال أخيه لاعبا ولا جادا، وإن أخذه فليرده عليه. زيلعي.(رد المحتار: 6/ 182)
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ :ولو استحق بعضه فلا خيار له في رد ما بقي؛ لأنه لا يضره التبعيض، والاستحقاق لا يمنع تمام الصفقة؛ لأن تمامها برضا العاقد لا برضا المالك، وهذا إذا كان بعد القبض.( الهداية :41/3)
وقال رحمہ اللہ :وكل ما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب؛ لأن التضرر بنقصان المالية، وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله.
( الهداية:37/3)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ :قوله :وما أوجب نقصان الثمن عند التجار فهو عيب لأن المقصود نقصان المالية وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله وهم التجار.( البحر الرائق:41/6)
ارشاد احمدبن عبدالقیوم
دار الافتاءجامعۃالرشید کراچی
14 رجب المرجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ارشاد احمد بن عبدالقیوم | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |