03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین نام کرنے سے ملکیت
86416میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد محترم2010میں وفات پاگئے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ہماری ماں،ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ ہماری ایک بہن ہمارے والد سے پہلے فوت ہو چکی ہے۔ ہمارے والد محترم سے وراثت میں آبائی گھر اور اس کے ساتھ کچھ زمین اور کھیت رہ گئےہیں۔ہمارے والد نے 1999میں ٹیکس سے بچنے کے لئے اپنی جائیداد میں سے 9کھیت اپنے بیٹے کو اس طرح ہبہ کی ہیں کہ اب پٹوار خانے میں صرف اس کے نام پر ہیں۔ اس کی تصدیق حکومت کے ریکارڈ میں جن بندوں نے کی تھی وہ ایک بھی زندہ نہیں۔اس کے علاوہ ہبہ کا کوئی اور گواہ بھی نہیں۔ اس وقت سرکاری لوگوں اور موجودہ سرکاری لوگوں کا ہبہ کے بارے میں جو بیان تھا اور ہے وہ یہ ہے کہ موصوف نے صرف ٹیکس سے بچنے کے لئے کیا تھا۔

 اس ہبہ کے کاغذات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہبہ کے کاغذات میں جو بیان ہے اس میں کسی گواہ کا ذکر نہیں ہے۔ سارےتصدیق کنندہ ہیں۔ہمارے بھائی نے ہبہ والی کھیتوں پر اپنے باپ کی زندگی میں نہ کوئی تعمیراتی کام کیا تھا نہ کسی پر بیچے تھے،بلکہ ہمارےعلاقائی روایات کچھ اس طرح ہیں کہ باپ کے بعد ساری زمین تقسیم تک بھائی کے پاس ہوتی ہے۔ تو کیا یہی کھیت شریعت میں اس کی ملکیت تصور کی جائیں گی۔ہمارے والد کی زندگی میں بھائی کو اس کے بیچنے کا اختیار نہیں تھا کیو نکہ ہمارے والد نے نہ خود اپنا کوئی زمین بیچا تھانہ کسی کواجازت دیتا تھا تو کیا اس طرح صرف کاغذات میں نام کرنے سے ہبہ ہو جاتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں  اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا  جائز ہے،یہ ہبہ کے حکم میں  ہے،اور ہبہ میں قبضہ ضروری ہے،اس لیے  اگر والد نے قبضہ دیا ہے اس طور پر  کہ اس جائیداد سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکربیٹے کے حوالے کردیا ہو توجائیداد بیٹے کی ملکیت میں آگئی ہے۔لہذا  اس سے نفع اٹھانا جائز ہے، البتہ سوال میں جوصورتحال ذکر کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ والد نے زمین توبیٹے کے نام کردی ہے مگر اسے قبضہ نہیں دیا،لہذا اگر صورت سوال حقیقت کے مطابق ہے تو ان کھیتوں پر بیٹے کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی ہے،والد کے انتقال کے بعد یہ میراث کاحصہ ہیں ،اور تمام ورثہ میں اپنے حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گی۔

حوالہ جات

وفی الدر(5/ 690):

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك  الواهب لا مشغولا به (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

14/ رجب 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب