86419 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ہمارابھائی کہتا ہے کہ والد صاحب نے میری بیوی اور بیٹوں کے سامنے پوری کی پوری جائیداد مجھے دے دی ہے۔ اس بات کے گواہ میری بیوی اور میرے بیٹے ہیں۔ اور اس پر ہم قسم اٹھانے کو بھی تیار ہیں، حالانکہ اس بات پر کوئی تحریری دستاویز یا گھر سے باہروالا شرعی گواہ نہیں ہے۔ اور اس بات کا ذکر ہمارے بھائی نے 14 سال بعد کیا ہے ،حالانکہ ہمارے اس کے ساتھ جائیداد کا مسئلہ 5 سال سے چلا آرہا ہے۔ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بھائی کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے اس دعوی کو عدالت یا پنچائیت کے سامنے دو مردوں یا ایک مرد اوردوعورتوں کی گواہی سے ثابت کردے کہ والد نےجائیداد میں سے یہ حصہ مجھے ہبہ دے کر قبضہ بھی دے دیا تھا،کیونکہ قبضہ دیئے بغیر صرف نام کروانے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا اور ایسی چیز میراث کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے گواہوں کے ذریعے اپنےاس دعوی کو ثابت کردیا تو فیصلہ ان کے حق میں کردیا جائے گا،لیکن اگر وہ
اپنے دعوی کو دو گواہوں سے ثابت نہ کرسکے توپھردیگربہن بھائیوں سے یوں قسم لی جائے گی کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اس کےمرحوم والد نے یہ مکان اس بھائی کو ہبہ کیا تھا،اگر وہ اس طرح قسم اٹھالیں تو پھریہ مکان بھی والدکے ترکہ میں شامل ہوکر ان کی وفات کے وقت موجود ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،اوراس بھائی کا دعوی باطل ہوگا۔
واضح رہے کہ بچے یا بیوی اس معاملے میں باپ یا شوہر کےلیے گواہ نہیں بن سکتے ہیں۔
حوالہ جات
البحر الرائق " (7/ 217):
"(قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث".
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
14/ رجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |