86418 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
ہبہ کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زندگی میں اپنی مکمل جائیداد یا اس کا کچھ حصہ اولاد کو ہبہ کی جاسکتی ہے،احناف کے نزدیک عام حالات میں اولاد کو ہدیہ دینے میں برابری مستحب ہے،بلاوجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ دیادہ دینا مکروہ ہے،البتہ کسی معقول وجہ ، مثلا دینداری،خدمت،تنگ دستی وغیرہ کی بناء پر کسی ایک کو زیادہ دے دینا بھی بلا کراہت جائز ہے۔
امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مساوات سے مراد یہ ہے کہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ،سب کو برابر دیں،امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک میراث کی طرح یہاں بھی تقسیم اس طرح ہوگی کہ لڑکی کو لڑکے کے حصے کے مقابلے میں نصف حصہ دیا جائے گا۔فتوی امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کے قول پر ہے،مگر بعض مخصوص حالات میں امام محمد رحمہ اللہ تعالی کے قول پر بھی فتوی دیا جاسکتا ہے۔
حوالہ جات
"المبسوط للسرخسي "(12/ 56):
"فالمذهب أنه ينبغي للوالد أن يسوي بين الأولاد في العطية عند محمد - رحمه الله - على سبيل
الإرث للذكر مثل حظ الأنثيين، وعند أبي يوسف - رحمه الله - يسوى بين الذكور والإناث قال: - عليه الصلاة والسلام - «ساووا بين أولادكم حتى في القبل، ولو كنت مفضلا أحدا لفضلت الإناث»:" .
"بدائع الصنائع "(6/ 127):
"وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة".
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
14/ رجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |