1:۔اِحرام کے نفل سر ڈھانک کر پڑھیں:
اِحرام کا لباس پہن کر سر ڈھانک کر نفل پڑھیں، پھر سر کھول کر تلبیہ پڑھیں۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۶۶۔۵۶۸)
2:۔خواتین کا سر پر رومال باندھنا:
عورتیں اِحرام میں سر پر رومال باندھنا ضرورِی سمجھتی ہیں اَور اس کو اِحرام سمجھتی ہیں، یہ جہالت اَور بدعت ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹، ہدایة: ۱/ ۲۵۵، غنیة: صـ ۹۴)
غیر محرم سے سر اَور چہرے کا پردہ فرض ہے اَور بالوں کی حفاظت کے لیے سر پر رومال باندھنا بھی فی نفسہٖ جائز ہے،(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹) مگر چونکہ عوام اس کو اِحرام سمجھنے لگے ہیں اَور رومال باندھنے سے ان کے غلط خیال کی تائید ہوتی ہے، اس لئے بہر صورت اس سے احتراز لازم ہے۔ پردے کے لیے برقع یا چادر کافی ہے۔ نقاب یا چادر چہرے پر اس طرح لٹکائیں کہ کپڑا چہرے سے نہ چھوئے۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹، ہدایة: ۱/ ۲۵۵، غنیة: صـ ۹۴) بعض عورتیں وضو کے وَقت بھی سر سے رومال نہیں کھولتیں اَور رومال پر مسح کرتی ہیں، ان کا نہ وضو ہوتا ہے نہ نماز۔(ہندیة: ۱/ ۶،مکتبہ رشیدیہ)
3:۔مسجد میں پانی کی خریدوفروخت:
مسجدمیں پانی کی خرید سے احتراز کریں۔(مناسک: صـ ۱۶۵، ابن ماجہ: صـ ۵۴)
4:۔ حالت ِ اِحرام میں حجرِ اَسود کا بوسہ:
حالت ِاِحرام میں حجرِ اَسود کا بوسہ نہ لیں اَور نہ ہاتھ لگائیں کیونکہ اس میں خوشبو لگی ہوتی ہے۔(فتاوٰی تاتارخانیة: ۲/ ۵۰۴، مکتبہ إدارة القرآن والعلوم الاسلامیہ)
5:۔دَورانِ طواف بوسہ لینے کے لیے اِنتظار:
طواف کے درمیان حجرِ اَسود کا بوسہ لینے کے لیے اِنتظار نہ کریں، بلکہ موقع مل جائے تو بہتر، ورنہ دور سے ہاتھوں سے اِشارہ کرکے ہاتھوں کو چوم لیں، ٹھہریں نہیں،3 کیونکہ طواف کے درمیان ٹھہرنا خلافِ سنت ہے،(غنیة: صـ ۱۲۶) اَلبتہ طواف کے شروع یا بالکل آخر میں بوسہ کے اِنتظار میں ٹھہرنے میں مضایقہ نہیں۔5(غنیة: صـ ۱۰۴)
6:۔حلقہ پر ہاتھ لگانا:
حجرِ اَسودکو بوسہ دیتے وَقت چاندی کے حلقہ پر ہاتھ نہ ٹیکیں۔(غنیة: صـ ۱۰۳)
7:۔بوسہ کے لیے ایذارسانی اَور مردوزن کا اختلاط:
حجرِ اَسود کا بوسہ اس حالت میں جائز نہیں جبکہ اِزدحام کی وجہ سے اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو اَور عورتوںکے لیے اس حال میں حجرِ اَسود کو چومنا بالکل حرام ہے جبکہ اجنبی مردوں کے ساتھ جسم لگنے کا احتمال ہو۔(ردالمحتار: صـ ۳/ ۵۷۷)۔ (ردالمحتار: ۳/ ۶۳۰، فتاویٰ تاتارخانیة: ۲/ ۴۷۱، غنیة: صـ ۹۴، مناسک: صـ ۱۶۹)
8:۔حجرِ اَسود کی طرف منہ کر کے دائیں طرف سرکنا:
جب حجرِ اَسود کی طرف منہ کریں تو اسی حالت میں دائیں جانب کو ہر گز نہ سرکیں(مناسک: صـ ۱۶۰، غنیة: صـ ۱۲۱، ردالمحتار: ۲/ ۴۹۵) بلکہ وہیں دائیں طرف کو گھوم جائیں اَور پھر آگے چلیں2(مناسک: صـ ۱۶۰، غنیة: صـ ۱۲۱، ردالمحتار: ۲/ ۴۹۵) کیونکہ ا س سے دَورانِ طواف بیت اللہ کی طرف منہ کرنا لازم آتا ہے جو حجرِ اَسود کے اِستلام یا اِشارہ کے سوا جائز نہیں۔
9:۔دَورانِ طواف بیت اللہ سے کٹ کر چلیں:
طواف کرتے وَقت بیت اللہ سے اتنا کٹ کر چلیں کہ جسم کا کوئی حصہ بیت اللہ کی بنیاد پر سے نہ گزرے۔(مناسک: صـ ۱۴۴)
10:۔رُکن یمانی کو صرف ہاتھ لگائیں:
طواف میں رُکن یمانی کو بوسہ نہ دیں، بلکہ اس کی طرف سینہ پھیر کر دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ لگائیں، داہنا ہاتھ نہ لگاسکیں تو بایاں نہ لگائیں اَور نہ ہی دور سے اِشارہ کریں۔(مناسک: صـ ۱۳۷)
11:۔خواتین ہجوم میں طواف نہ کریں:
عورتوں کو اَیسے ہجوم کے وَقت طواف کرنا جائز نہیںجس میں مردوں کے ساتھ جسم لگنے کا اندیشہ ہو، دوسرے اوقات میں بھی مردوں سے باہر کی طرف مطاف کے کنارے کے قریب طواف کریں۔(مناسک: صـ ۱۶۰ ۔ ۱۶۹، غنیة: صـ ۱۲۲)
12:۔مکہ میں اَفضل ترین عبادت طواف ہے:
مکہ مکرمہ میں ہوتے ہوئے طواف کے برابر کوئی نفل عبادت نہیں، خوب طواف کریں۔(مناسک: صـ ۱۶۸، غنیة: صـ ۱۳۷، بدائع: ۳/ ۱۲۸، ردالمحتار: ۲/ ۵۰۲، تاتارخانیة: ۲/ ۴۵۱)
13:۔خواتین کے لیے اپنے مکان میں نماز پڑھنا اَفضل ہے:
عورتوں کے لیے مسجد ِ نبوی اَور مسجد ِ حرام میں نماز پڑھنے سے اپنے مکان میں پڑھنا زِیادہ ثواب ہے۔(ردالمحتار: ۲/ ۵۶۶)
14:۔نماز میں کوئی عورت ساتھ یا سامنے کھڑی ہو جائے تو؟
حرمین شریفین میں کئی حضرات اس پریشانی میں رہتے ہیں کہ نماز کی جماعت میں کوئی عورت ان کے ساتھ یا ان کے آگے نہ کھڑی ہو، ان کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، اس لئے کہ اس صورت میںمرد کی نماز تب فاسد ہوتی ہے جب امام نے عورتوں کی امامت کی بھی نیت کی ہو اَور اس کا یقین نہیں، کیوں کہ وہاں کے علماء کے ہاں عورتوں کی نیت ضرورِی نہیں، لہٰذا مردوں کی نماز ہوجائے گی، اَلبتہ مردوں کی صف میں کھڑی ہونے والی عورت کی نماز نہ ہوگی،(ردالمحتار: ۱/ ۳۸۵) بلکہ امام عورتوں کی نیت نہ کرے تو مردوں کے پیچھے کھڑی ہونے والی عورتوں کی نماز میں بھی اختلاف ہے، عدمِ صحت راجح ہے، مع ہذا اختلاف کے پیش نظر دوسروں پر شدت نہ کریں، خود احتیاط کریں۔
15:۔ منیٰ وعرفات اَور مزدَلفہ میں امام کے ساتھ نماز:
منی،عرفات اَور مزدَلفہ میں نماز امام کے ساتھ نہ پڑھیں کیونکہ وہ مسافر شرعی نہ ہونے کے باوجود قصر کرتے ہیں، لہٰذا الگ خیمہ میں جماعت کریں۔(مناسک ملا علی قاری: صـ ۱۹۵، غنیة: صـ ۱۵۰، ردالمحتار: ۲/ ۵۰۵)
16:۔مزدَلفہ کی حدود میں اتریں:
عرفات سے واپسی پر کئی گاڑی والے مزدَلفہ کی حد شروع ہونے سے قبل ہی اُتار دیتے ہیں، ’’مسجد مشعر الحرام‘‘سے کچھ پہلے ہر سڑک پر ’’مبدأ مزدَلفہ‘‘کا بورڈ لگا ہوا ہے، اُس سے آگے گزر کر اُتریں۔(غنیة: صـ ۱۶۲)
17:۔مزدَلفہ میں نمازِ فجر وَقت پر پڑھیں:
مزدَلفہ میں معلّم اپنی سہولت کے لیے فجر کی اذانیں قبل اَز وَقت دلاتے ہیں، اس وَقت فجر کی نماز صحیح نہیں ہوتی اَور صبح صادق سے قبل مزدَلفہ سے نکلنے پر ’’دَم‘‘ واجب ہوگا، صبح صادق کا یقین ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھیں اَور اس کے بعد(طلوعِ آفتاب سے ذرا پہلے تک وقوف کر کے) مزدَلفہ سے نکلیں۔ 8/ذِی الحجہ کو مسجد ِحرام میں جماعت قائم ہونے کا وَقت محفوظ کرلیں اَور اس سے بھی پانچ منٹ بعد مزدَلفہ میں فجر کی نماز پڑھیں۔(مناسک: صـ ۲۱۹، غنیة: صـ ۱۶۶)
18:۔ عورت پر خود رَمی کر نا لازم ہے:
عورت پر خود رَمی کرنا لازم ہے، اَگر اس کی طرف سے مرد رَمی کرے گا تو صحیح نہ ہو گی۔(غنیة: صـ ۸۸ا)اَور عورت پر دَم واجب ہوگا۔
19:۔رَمی اَور قربانی میں جلدی مچانا:
رَمی اَور قربانی میں اتنی جلدی کرنا کہ اِزدحام کی وجہ سے اپنے نفس کو یا کسی دوسرے کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو حرام ہے، غروب سے کچھ قبل اطمینان سے رَمی کریں، اَگر اس وَقت بھی سخت اِزدحام ہو تو غروب کے بعد رَمی کریں۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۱۰، بدائع: ۳/ ۱۱۹) اَیسی حالت میں غروب کے بعد رَمی کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔(غنیة: صـ ۱۷۰)
20:۔ کنکری احاطہ کے اندر پھینکنا ضرورِی ہے:
رَمی کرتے وَقت کنکریاں پتھروں کے گرد جو دیوار ہے اسکے احاطہ میں پھینکیں، اَگر پتھر کو کنکری ماری اَور وہ پتھر سے ٹکرا کر احاطہ کے اندر گر گئی تو رَمی درست ہوگئی اَور اَگر باہر گری تو صحیح نہیں ہوئی، دوبارہ ماریں۔(مناسک: صـ ۲۴۵، ردالمحتار: ۲/ ۵۱۳)
21:۔12/ذِی الحجہ کو رَمی زَوال سے پہلے کی تو دَم لازم ہے:
بارہویں ذِی الحجہ کو بہت سے لوگ زَوال سے قبل ہی رَمی کرکے مکہ مکرمہ چلے جاتے ہیں، اُن کی رَمی نہیں ہوتی، اس لئے اُن پر دَم واجب ہوگا۔(بدائع الصنائع: ۹۳،دارالکتب العلمیة، مناسک: صـ ۲۳۷، غنیة: صـ ۱۸۱)
22:۔تمتع و قران میں ’’دَم شکر‘‘ مستقل واجب ہے:
حجِ تمتع یا قِران میں جو جانور منٰی میں ذِبح کیا جاتا ہے اُسے ’’دَمِ شکر‘‘ کہتے ہیں اَور یہ عیدکی قربانی سے الگ واجب ہے۔(مناسک ملاّ علی قاری: صـ ۲۲۶، غنیة الناسک: صـ ۱۷۲، بدائع الصنائع: صـ ۱۴۷، ردالمحتار: ۲/ ۵۱۵)حاجی پر سفر کی وجہ سے عید کی قربانی واجب نہیں،(البحرالرائق: ۲/ ۳۷۰ مکتبہ رشیدیہ، غنیة: صـ ۲۱۶) اَلبتہ اَگر کوئی حاجی قربانی کے دِنوں میں صاحب ِنصاب اَور مقیم ہو تو اس پر دَم ِشکر کے علاوہ عید کی قربانی بھی واجب ہے، خواہ منیٰ میں ذِبح کرے یا اپنے وطن میں کرائے۔(بدائع: ۶/ ۲۸۱۔۲۸۳، ردالمحتار: ۹/ ۵۲۰، طبع بیروت) اَگر کسی نے دَمِ شکر کو عید کی قربانی سمجھ کر اَدا کیا تو دَمِ شکر اَدا نہیں ہوا۔(ردالمحتار: ۲/ ۵۳۸، غنیة: صـ ۲۱۶) اَگر دَمِ شکر اَدا کرنے سے پہلے اِحرام کھول دیا تو اُس پر دَمِ شکر کے علاوہ ایک اَور دَم بھی واجب ہوجائے گااَور اَگر اَیامِ نحر کے اندر دَمِ شکر نہیں دیا تو تاخیر کی وجہ سے تیسرا دَم واجب ہوجائے گا، اس طرح اُسے چار جانور ذِبح کرنے پڑیں گے۔(غنیة: صـ ۲۸۰، ردالمحتار، باب الہدی: ۲/ ۶۱۶، ہدایة: ۱/ ۲۷۷، فتح القدیر: ۲/ ۴۳۶، البحرالرائق: ۳/ ۲۴ ۔ ۳۶۱، العالمکیریة: ۱/ ۲۶۱، شرح الوقایة: ۱/ ۲۷۵)
23:۔اِحرام کھولنے کیلئے سر منڈانا یا انگلی کے پورے کے برابربال کاٹنا :
اِحرام کھولنے کے لیے سَر منڈائیں(غنیة: صـ ۱۷۳، ہدایة: ۱/ ۲۵۰، ردالمحتار: ۲/ ۵۱۵، بدائع: ۳/ ۱۰۱) یا کم اَز کم چوتھائی سر کے بال انگلی کے پورے کی لمبائی کے برابر کٹوائیں،(مرقاة: ۵/ ۵۴۰، المکتبہ الحبیبہ) اَگر بال اتنے چھوٹے ہوں کہ انگلی کے پورے کی لمبائی کے برابر نہ کاٹے جاسکتے ہوں تو اُن کا منڈانا ضرورِی ہے، کاٹنے سے اِحرام نہ کھلے گا۔(غنیة: صـ ۱۷۵، مناسک: صـ ۲۳۰)
24:۔ صفا، مروہ پر چڑھنا:
صفا اَور مروہ پر زِیادہ اوپر چڑھنا جہالت ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۸۷، غنیة: صـ ۱۲۸ ۔ ۱۳۰، مناسک: ۱۷۱ ۔ ۱۷۳)
25:۔رَوضۂ مطہرہ پر حاضری میں دَھکا بازی:
حضورِ اکرم ﷺکے سامنے حاضری کے لیے دَھکا بازی،(مناسک: صـ ۱۷۴) خصوصاً عورتوں کا غیر محرموں کے ہجوم میں داخل ہونا حرام ہے، اَیسی حالت میں دُور سے سلام پڑھیں۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۳۰)
اَز شیخ المشایخ مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ ﷲ تعالیٰ