86368 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | کئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان |
سوال
میرے والد محترم کا ان کے سر پر 80 لاکھ قرضہ تھا، میرے والد صاحب نے اپنے انتقال سے چند عصہ پہلے ان قرضوں کا تذکرہ کیا ، اور تمام بہن بھائیوں کے سامنے کہا کہ وہ قرضہ بی بی عائشہ کے نام کر دیا ہے، جب چاہیں عائشہ قرضے کا مطالبہ کر سکتی ہے ، میں نے یہ قرضہ عائشہ کو گفٹ کر دیا ہے ، جب ہمارے والد مرحوم نے یہ کہا تھا ، اس وقت عائشہ کی عمر 10 سال تھی، ابھی ہم میراث تقسیم کرنا چاہ رہے ہیں، برائے مہربانی ہماری رہنمائی فریادیں کہ وہ قرضہ بھی میراث میں شمار کیا جائے گا ، یا اسے کل ترکہ سے منہا کیا جائے گا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جس قرض کے لینے کا حق آپ کے والد نےعائشہ بی بی کو ہدیہ کیا ہے اس پرزندگی میں والد صاحب یا بچی کا قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے عائشہ کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی ۔ چنانچہ قرضہ میراث میں شامل ہے ۔تاہم تمام بالغ ورثہ اپنی دلی رضامندی سے اور والد صاحب کی منشاء کے مطابق عائشہ کو دے دیں تو یہ پسندیدہ عمل ہوگا ۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الكاساني رحمہ اللہ : (وأما) هبة الدين لغير من عليه الدين فجائز أيضا إذا أذن له بالقبض وقبضه استحسانا والقياس أن لا يجوز وإن أذن له بالقبض.( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: 6/ 119)
فی الھندیۃ:وهبة الأب لطفله تتم بالعقد ولا فرق في ذلك بينما إذا كان في يده أو في يد مودعه بخلاف ما إذا كان في يد الغاصب أو في يد المرتهن أو في يد المستأجر حيث لا تجوز الهبة لعدم قبضه، وكذا لو وهبته أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي، وكذا كل من يعوله، كذا في التبيين وهكذا في الكافي.
( الفتاوى الهندية : 4/1 39)
قال برهان الدين رحمہ اللہ : نوع منه: إذا وهب الدين من غير من عليه الدين وسلطه على القبض جاز ذلك استحسانا، والقياس: أن لا يجوز وبه أخذ زفر؛ لأن الدين ليس بمال، والهبة وضعت لتمليك المال، فالهبة أضيفت إلى غير محلها فلا يصح، وإنما جاز هبة الدين فيمن عليه الدين بطريق الكناية عن الإبراء والإسقاط، ولنا: أن الواهب لما أمره بالقبض فقد جعله نائبا عن نفسه في القبض فيقع قبض الموهوب للواهب أولا ثم لنفسه أو أن عمل الهبة ما بعد القبض وبعد القبض هو مال محل للتمليك. (المحيط البرهاني: 6/ 243)
قال الحصکفی رحمه الله تعالى:اتخذ لولده أو لتلميذه ثيابا ثم أراد دفعها لغيره ليس له ذلك ما لم يبين وقت الاتخاذ أنها عارية.وقال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ :(قوله لولده) أي الصغير وأما الكبير فلا بد من التسليم كما في جامع الفتاوى. (رد المحتار : 5/ 696)
حماد الرحمن بن سیف الرحمن
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
15/ رجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | حماد الرحمن بن سیف الرحمن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |