86425 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
میرا نام عشاء ہے، عمر 25 سال ہے، اور میں گجرات سے ہوں۔ میں اپنے ایک کزن سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ میرے گھر والوں کو میری پسندیدگی کا علم تھا، اور میرے کزن کے گھر والے بھی دو سے تین مرتبہ رشتہ کے لیے ہمارے گھر آ چکے تھے۔ لیکن میرے گھر والے اس رشتے کے لیے بالکل بھی رضامند نہیں تھے، بلکہ مجھے سختی سے منع کر دیا گیا کہ ان کے ساتھ کسی صورت بھی شادی ممکن نہیں ہے۔یہ معاملہ بہت زیادہ طول پکڑ گیا، اور اس دوران میں ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی۔ میری حالت ایسی ہو گئی کہ میں اکثر بیمار رہنے لگی۔ میں ایک اسکول میں بطور ٹیچر کام کرتی ہوں۔ وہاں کے پرنسپل صاحب کو میری ایک دوست کے ذریعے میرے مسائل اور بیماری کا علم ہوا۔ انہوں نے مجھے کچھ حوصلہ دیا اور وقتاً فوقتاً میرا حال احوال پوچھتے رہے۔ ان کی باتوں اور رویے کی وجہ سے میں کافی بہتر محسوس کرنے لگی اور میرے دل میں ان کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہو گئے۔ان کو میرے ان خیالات کا علم نہیں تھا، لیکن میں نے ان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے بھی ہیں۔ اس کے باوجود مجھے لگا کہ میں ان کے ساتھ خوش رہ سکتی ہوں اور مجھے ان سے شادی کر لینی چاہیے۔میں نے اپنی دوست کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ پہلے تو اس نے کچھ اعتراض کیا، لیکن بحث کے بعد وہ بھی قائل ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے اسی دوست کے ذریعے پرنسپل صاحب کے بھائی، جو اسی اسکول کے چیئر مین ہیں، کو پیغام بھیجا کہ میں سر کو پسند کرتی ہوں اور ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ان سے گزارش کی کہ وہ یہ بات آگے بڑھائیں اور ہمارے گھر رشتہ لے کر آئیں۔پرنسپل صاحب کے بھائی نے میری دوست کو فوراً جواب دیا کہ ہمارا اور آپ کا خاندانی پس منظر بہت مختلف ہے اور آپ کے گھر والے کسی صورت رضامند نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی میرے بھائی پہلے سے شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، لہٰذا یہ بات یہیں ختم کر دی جائے۔اس جواب کے باوجود، میں پر امید رہی کہ کسی طرح میری اور سر کی شادی ہو جائے گی۔ میں نے خود اپنے والد سے بات کی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے میری بات کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بلکہ انہوں نے سختی سے منع کر دیا اور مجھ پر سختی کرنا شروع کر دی۔
جب گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئیں اور میں اسکول جانے لگی، تو میرے والد نے مجھے روک دیا۔ انہوں نے نہ صرف مجھے اسکول جانے سے منع کیا بلکہ میرا گلا دبا کر جان سے مارنے کی کوشش بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہم نے اپنی بہن کو مار دیا تھا، اسی طرح تمہیں بھی قتل کر دیں گے۔میں اس صورتحال سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئی اور خاموش رہی۔ میرے بہن بھائیوں میں سے بھی کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ مجھے سب سے دوری محسوس ہونے لگی اور میں اپنے گھر والوں سے نفرت کرنے لگی۔ نہ تو وہ میرا رشتہ کہیں اور کر رہے تھے، اور نہ ہی جہاں میں چاہتی تھی، وہاں شادی کی اجازت دے رہے تھے۔اس دوران، پرنسپل صاحب کو بھی میرے جذبات کا علم ہو چکا تھا، اور میں نے خود بھی ان کے سامنے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ نکاح کرنے کی آمادگی ظاہر کی، لیکن میرے گھر والوں کا رویہ اور بڑھتی ہوئی سختی میرے لیے ناقابل برداشت ہو گئی۔ مجھے کسی بھی کام کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، اور میں مکمل طور پر ایک قیدی کی طرح زندگی گزار رہی تھی۔
ان حالات سے تنگ آ کر میں نے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی ایک دوست کی مدد سے میں لاہور ہائیکورٹ گئی اور وہاں بیان دیا کہ میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں۔ میرے گھر والے میرے ساتھ ناقابل برداشت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور میں ان کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتی۔ اس بیان کے بعد، میں دارالامان میں کچھ دن رہی اور پھر اپنی دوست کے ساتھ رہنے لگی۔اس دوران میں نے پرنسپل صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ میری حالت پر بہت پریشان ہوئے اور میری بے بسی کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھ نکاح کے لیے تیار ہو گئے۔ چنانچہ، اگست 2024 میں ہم نے کورٹ میرج کر لی۔نکاح کے چند دن بعد، میرے گھر والوں کو ہماری شادی کا علم ہو گیا۔ میں لاہور میں تھی، جبکہ میرے خاوند گجرات میں اپنے گھر پر تھے۔ میرے گھر والوں نے ان کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور سنگین دھمکیاں دیں۔ انہوں نے کہا کہ تین دن کے اندر ہماری بیٹی کو واپس کرو اور طلاق دو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم نہ صرف اپنی بیٹی کوڈھونڈ کر قتل کریں گے بلکہ آپ سب کو بھی جان سے مار دیں گے۔کسی ایک بچے کو بھی نہ چھوڑیں گے،میرے خاوند کے گھر والے ان دھمکیوں سے شدید گھبرا گئےاور ان پر دباؤ ڈالا کہ اگر اپنی، اپنی بیوی کی اور اپنی پہلی بیوی اور بچوں کی اور ہم سب کی جان بچانا چاہتے ہو،تو اپنی بیوی کو واپس بھی لے کر آؤ اور اس کو طلاق دے کے ان کے گھر والوں کے حوالے کر دو۔ میرے خاوند کسی بھی صورت میں طلاق نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لڑکی کو واپس لے آتے ہیں، اور آپ نکاح دوبارہ پڑھا کر رخصتی کر لیں۔ لیکن میرے گھر والے اس بات پر بھی راضی نہیں ہوئے۔بالآخر میرے خاوند نے مجبور ہو کر جان کی دھمکیوں کے دباؤ میں آ کر طلاق کے کاغذات پر دستخط کر دیے۔ انہوں نے منہ سے طلاق کے الفاظ ادا نہیں کیے۔ یہ ساری صورت حال مکمل تفصل کے ساتھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکمل پس منظر معلوم ہو اس کے مطابق فتویٰ دیا جائے۔
1: ہماری طلاق ہو چکی ہے یا نہیں؟کیونکہ میں نے یوٹیوب پر کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی۔
2: ہماری ذات راجپوت ہے، میرے خاوند کی ذات رحمانی ہے۔ ذات کے لحاظ سے برابری نہیں لیکن دیگر تمام معاملات میں وہ ہم سے ہر لحاظ سے برتر ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے، دینی لحاظ سے، سوشل سٹیٹس کے لحاظ سے، ہر لحاظ سے وہ معاشرے میں بہت اچھی حیثیت کے حامل ہیں۔ تو کیا اس لحاظ سے ہمارا کفو بنتا ہے؟
3: کیا میرے گھر والے طلاق کے معاملہ میں حق بجانب ہیں جب کہ میں ان کو اپنا سرپرست تسلیم نہیں کرتی تھی؟ میں نے عدالت میں بیان دے دیا کہ میں ان کے ساتھ کسی صورت میں نہیں رہنا چاہتی کیوں کہ وہاں میری جان کو شدید خطرہ ہے۔ اور یہ سب حقیقت میں ایسا ہی تھا۔ تو کیا اب نکاح کے بعد میرے گھر والوں کا یہ طرز عمل درست تھا؟ اور کیا میرے خاوند کو اس طرح بلیک میل کر کے جان کی دھمکی دے کر طلاق لینا درست ہے؟
تنقیح:سائلہ نے بتایا کہ شوہر معروف دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ حفظ شروع کیا تھا لیکن بہت بیمار ہو جانے کی وجہ سے مکمل نہیں کر سکے۔ تبلیغی جماعت سے رغبت ہے۔معاشرتی لحاظ سے ایک بہت اچھا مقام ہے ان کا۔ لوگ ان کی بات اور رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسکولز کے کئی کیمپس چلا رہے ہیں۔ مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھاتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے علاقہ میں بہت اچھا مقام ہے۔ خاندان میں پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے ان کی بات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔رحمانی برادری کی طرف سے عیدین یا کسی بھی موقع پر کھانا وغیرہ بھیجا جائے تو ہماری برادری میں اس کو کھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جاتا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جواب سے قبل چند باتیں بطور تمہید سمجھ لیں۔
مفتی غیب نہیں جانتا، وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے، سوال میں سچ اورجھوٹ کی ذمہ داری سائل پر ہوتی ہے، غلط بیانی کرکے اپنے مطلب کا فتویٰ حاصل کرنے سے حرام ، حلال نہیں ہوتا اور نہ حلال ، حرام ہوتا ہے، بلکہ حرام بدستور حرام اور حلال بدستور حلال ہی رہتا ہے، اگر کوئی غلط بیانی کے ذریعہ فتویٰ حاصل کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔
شریعت میں نکاح کےوقت لڑکے کا لڑکی کےساتھ چند چیزوں میں ہم پلہ ہونا ضروری ہے، اس کو اصطلاح میں کفاءت کہتے ہیں۔ فقہاءِ کرامؒ نے لڑکے کا لڑکی کے کفو ہونے کے لئے کئی چیزوں کا اعتبار کیا ہے-1نسب یعنی خاندانی شرافت میں-2دینداری یعنی احکامِ شریعت کی پابندی کرنےمیں-3مال میں (یعنی لڑکا اتنا مالدار ہو کہ وہ بیوی کا مہرِ معجّل اور بیوی کانفقہ دے سکتا ہو) اور -4پیشے میں (یعنی لڑکے کا پیشہ ایسا ہو کہ عرف میں وہ لڑکی والوں کے پیشہ سے زیادہ حقیر اور کمتر نہ سمجھا جاتا ہو)۔ لڑکے کا خاندان اگر ان تمام امور میں لڑکی کے خاندان کا ہم پلہ ہو،تو لڑکا، لڑکی کا کفؤشمار ہوتا ہے،وگرنہ نہیں۔
ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کرنا شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے،اس لیے کہ شریعت نے جہاں نکاح میں عورت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھا ہے وہاں ساتھ راستہ بھی بتا دیا کہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں انجام پذیرہوں، اسلام نے جہاں اس بات کی اجازت دی کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح بلاتمیز رنگ ونسل، عقل وشکل اور مال وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے تاکہ اس عقد کے نتیجے میں تلخیوں، لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے۔ اولیاء کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی میں نکاح سے پہلے کئی حرام امورکا ارتکاب کیاجاتاہے جیسے بدنظری ، ناجائزاختلاط ،اجنبی کےساتھ خلوت اوربعض اوقات بدکاری تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے،اس لیے شریعت کی نظر میں ایسانکاح بالکل پسندیدہ نہیں ہے،تاہم اگر کسی نے ایسی غلطی کرہی لی ہو اورلڑکا اس کے کفؤ(برابری)کا ہوتونکاح بہرحال منعقدہوجائےگا۔ (التبویب81115)
دینِ اسلام میں ماں باپ پر اولاد کے حقوق میں سے ہےکہ جب اولاد بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کردیں ، اور تاخیر نہ کریں ،لہذا اولاد جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردیناچاہئے، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹی شادی کرنا چاہتی ہےا ور نکاح نہ ہونے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے ،اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔
اس طرح اگر ولی کفؤ میں رشتہ آنے کے باجود نکاح نہیں کروا تا تو اس شرعی حکم میں تاخیر کی وجہ سے یہ ولایت قاضی اور جج کو منتقل ہوجاتی ہے ،لہذا قاضی کفؤمیں لڑکی کی شادی کرائے گا،اور یہ نکاح منعقد ہوگا ۔
حنفیہ کے نزدیک عاقل بالغ مسلمان لڑکی اگر اپنے ہوش وحواس کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں ولی کی اجازت کےبغیرکفو میں نکاح کرے تو یہ نکاح شرعا درست اور منعقد ہو تاہے۔
مذکورہ تفصیل کے بعد سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔
-1طلاق نامے پر دستخط کرتے وقت اگر آپ کے شوہر کو ظن غالب یایقین تھا کہ طلاق نامہ پر دستخط نہ کیے تو اس كو یا اس کے خاندان کے کسی فردکو قتل كر دیا جائے گا،اور صورتحال یہ تھی کہ آپ کے خاندان والے یہ سب کر گزرنے پر قادر بھی تھے۔نیز دستخط کرتےوقت آپ کے شوہر کی نیت طلاق کی نہ تھی اور نہ ہی زبان سے طلاق کےکوئی الفاظ ادا کئےہے ، توصرف طلاق کے کاغذات پر دستخط کر نے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ۔
-2آپ راجپوت اورآپ کے خاوند کی ذات رحمانی ہے۔ ذات کے لحاظ سےاگر چہ دونوں برابر نہیں ، لیکن دنیاوی لحاظ سے، دینی لحاظ سے اورخصوصاً سوشل سٹیٹس کے لحاظ سےآپ کا خاوند معاشرے میں بہت اچھی حیثیت کے حامل ہیں، خاندان میں پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے ان کی بات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے،لہٰذا وہ آپ کا کفؤ ہےاور یہ نکاح درست ہے اور منعقد بھی ہے،کیونکہ فقہاء کرام نے علم اور جاہ و منصب کو نسب کےنہ صرف برابربلکہ قوی قرار دیا ہے ۔
-3 بالغہ لڑکی پر ولی کو ولایتِ اجبار حاصل نہیں، لہٰذاآپ کے خاندان والے آپ کی اجازت اور رضامندی کے بغیر آپ کا نکاح نہیں کراسکتے،اور نہ طلاق پر آپ کو مجبور کرسکتے ہیں ۔
-4باقی خاندان والوں کا آپ کویاآپ کے خاوندکو جان کی دھمکیاں دینا جائز نہیں ،اور نہ زور زبردستی آپ کے خاوند سے طلاق لینا جائز ہے ،بلکہ اب جب نکاح ہو چکا ہے تو سب کو چاہیے کہ اب اس نکاح کو باقی رکھنے کے لئے کوشش کرے،اور آپ بھی حتی الامکان والدین کو منانے کی کوشش جاری رکھیں ۔
حوالہ جات
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/200)
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إن لا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد عريض
سنن الدارقطني (3/244)
عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تنكحوا النساء إلا الأكفاء ولا يزوجهن إلا الأولياء ولا مهر دون عشرة دراهم.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 82):
ويثبت للأبعد) على أولياء النسب شرح وهبانية لكن في القهستاني عن الغياثي: لو لم يزوج الأقرب زوج القاضي عند فوت الكفء (التزويج بعضل الأقرب) أي بامتناعه عن التزويج إجماعا خلاصة (ولا يبطل تزويجه) السابق (بعود الأقرب) لحصوله بولاية تامة
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 56):
(ويفتى) في غير الكفء(بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان) قوله بعدم جوازه أصلا) هذه رواية الحسن عن أبي حنيفة، وهذا إذا كان لها ولي لم يرض به قبل العقد، فلا يفيد الرضا بعده بحر. وأما إذا لم يكن لها ولي فهو صحيح نافذ مطلقا اتفاقا كما يأتي
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 92):
(قوله لكن في النهر إلخ) حيث قال ودل كلامه على أن غير العربي لا يكافئ العربي، وإن كان حسيبا لكن في جامع قاضي خان قالوا الحسيب يكون كفؤا للنسيب، فالعالم العجمي يكون كفؤا للجاهل العربي والعلوية لأن شرف العلم فوق شرف النسب وارتضاه في فتح القدير وجزم به البزازي وزاد والعالم الفقير يكون كفؤا للغني الجاهل والوجه فيه ظاهر لأن شرف العلم فوق شرف النسب فشرف المال أولى...(قال ابن عابدين)وذكر الخير الرملي عن مجمع الفتاوى: العالم يكون كفؤا للعلوية لأن شرف الحسب أقوى من شرف النسب وعن هذا قيل إن عائشة أفضل من فاطمة لأن لعائشة شرف العلم كذا في المحيط، وذكر أيضا أنه جزم به في المحيط والبزازية والفيض وجامع الفتاوى وصاحب الدرر ثم نقل عبارة المصنف هنا ثم قال: فتحرر أن فيه اختلافا ولكن حيث صح أن ظاهر الرواية أنه لا يكافئها، فهو المذهب خصوصا وقد نص في الينابيع أنه الأصح.... ولا يخفى أن هذا وإن كان ظاهره الإطلاق، ولكن قيده المشايخ بغير العالم وكم له من نظير فإن شأن مشايخ المذهب إفادة قيود وشرائط لعبارات مطلقة استنباطا من قواعد كلية أو مسائل فرعية أو أدلة نقلية وهنا كذلك فقد ذكر في آخر الفتاوى الخيرية في قرشي جاهل تقدم في المجلس على عالم أنه يحرم عليه إذا كتب العلماء طافحة بتقدم العالم على القرشي، ولم يفرق سبحانه بين القرشي وغيره في قوله {هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون} [الزمر: 9] إلى آخر ما أطال به فراجعه فحيث كان شرف العلم أقوى من شرف النسب بدلالة الآية وتسريحهم بذلك اقتضى تقييد ما أطلقوه.
الفتاوى الهندية - (1 / 290)
الكفاءة تعتبر في أشياء (منها النسب)… (ومنها إسلام الآباء)…(ومنها الحرية)…(ومنها الكفاءة في المال)…(ومنها الحرفة).
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 9 / ص 138):
لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع۔
فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي (3/ 297):
وفي الجامع لقاضي خان: قالوا الحسيب يكون كفئا للنسيب، فالعالم العجمي كفء للجاهل العربي والعلوية، لأن شرف العلم فوق شرف النسب والحسب ومكارم الأخلاق. وفي المحيط عن صدر الإسلام: الحسيب هو الذي له جاه وحشمة ومنصب. وفي الينابيع: والأصح أنه ليس كفئا للعلوية.وأصل ما ذكره المشايخ من ذلك ما روي عن أبي يوسف أن الذي أسلم بنفسه أو أعتق إذا أحرز من الفضائل ما يقابل به نسب الآخر كان كفئا له ولا يعتبر بالبلاد.
محمد اسماعیل بن اعظم خان
دار الافتا ء جامعہ الرشید ،کراچی
12/رجب 6144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن اعظم خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |