86477 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
بیوی کا پلاٹ ہےاور 2017 میں شوہر نے اس پر 10,000 ڈالر کی لاگت سے گھر تعمیر کیا ۔ گھر کا کرایہ کون لے گا؟
تنقیح: سائل نے ای میل پر بتایا کہ شوہر نے بیوی کی اجازت سے گھر تعمیر کیا اور زبانی معاملہ طے ہوا تھا کہ گھر کا کرایہ شوہر لے گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں بیوی نے اپنی زمین شوہر کو عاریت (کسی کو اپنی چیز بلا معاوضہ استعمال کے لیے)کے طور پر دی ہے، اس زمین كی مالکن بیوی ہے، اور شوہر اپنے سرمایہ سے بنائی ہوئی تعمیر کا مالک ہے، لہذا گھر کا کرایہ شوہر وصول کرے گا، البتہ بیوی کو شرعا یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی زمین واپس لینے کا مطالبہ کر سکتی ہے، ایسی صورت میں شوہرپر تعمیر کردہ عمارت ہٹا کر بیوی کو زمین واپس کرنا لازم ہوگا، نیز ایسی صورت میں بیوی پر تعمیر کی قیمت یا اخراجات شرعا لازم نہیں ہونگے (تاہم اگر بیوی اپنی طرف سے تبرع یا مصالحت کے طور پر کچھ اخراجات دینا چاہے، تو دے سکتی ہے)، البتہ اگر عمارت گرانے کی وجہ سے زمین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو بیوی کو اختیار ہے کہ تعمیر نہ گرانے دے، بلکہ تعمیر کو ملبے کی حالت میں فرض کرکے اس ملبے کی جو قیمت ہو، وہ شوہرکو ادا کرکے خود تعمیر کی مالکن بن سکتی ہے، اس صورت میں بیوی آئندہ کے لیے اپنی زمین کے استعمال کرنے کے عوض شوہرسے کرایہ کا مطالبہ کر سکتی ہے، اور اپنی زمین کا کرایہ لینے کے لئے بیوی پر تعمیر کا خرچہ دینا شرعا لازم نہیں ہے۔
نیز مذکورہ صورت میں بیوی، شوہرسے باہمی رضامندی کے ساتھ طے شدہ قیمت کے عوض اس تعمیر کی خریداری بھی کر سکتی ہے، ایسی صورت میں زمین اور تعمیر دونوں بیوی کی ہو جائیں گی، اسی طرح شوہر، بیوی کی رضامندی سے، اس سے زمین خرید کر اس کی زمین کا بھی مالک بن سکتا ہے۔اسی طرح باہمی رضامندی سے عمارت کو اس طرح باقی بھی رکھ سکتے ہیں کہ عمارت کاکرایہ شوہر لے اور زمین کی ویلیو کے حساب سے خالی زمین کا جو کرایہ بنتا ہے وہ بیوی شوہر سے وصول کرے۔لہذا شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ آپس میں مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے کوئی جائز صورت اختیار کرلیں۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (11/ 133):
العارية: تمليك المنفعة بغير عوض، سميت عارية لتعريها عن العوض،
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 280):
(قوله ويرجع المعير متى شاء) لعدم لزومها
مجمع الضمانات (ص: 66):
رجل استعار من آخر أرضا ليبني فيها ويغرس فيها نخيلا فأعارها صاحب الأرض لذلك ثم بدا للمالك أن يأخذ الأرض كان له ذلك سواء كانت الإعارة مطلقة أو مؤقتة إلى عشر سنين أو ما أشبه ذلك لأنها غير لازمة ثم إن كانت الإعارة مطلقة فرجع المعير لا يضمن للمستعير شيئا ويكون للمستعير غرسه وبناؤه على قول ابن أبي ليلى.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 243):
(صح الإعارة) أي إعارة الأرض (للبناء والغرس) ؛ لأن منفعتها معلومة تملك بالإجارة فتملك بالإعارة (وله) أي للمعير (أن يرجع) ؛ لأن الإعارة ليست بلازمة (ويكلف قلعهما) أي البناء والغرس؛ لأنه شاغل أرضه بملكه فيؤمر بالتفريغ إلا إذا شاء أن يأخذهما بقيمتهما إذا استضرت الأرض بالقلع فحينئذ يضمن له قيمتهما مقلوعين ويكونان له كي لا تتلف أرضه عليه ويستبد ذلك به؛ لأنه صاحب أصل، وإذا لم تستضر به لا يجوز الترك إلا باتفاقهما ولا يشترط الاتفاق في القلع بل أيهما طلبه أجيب (وضمن رب الأرض ما نقص) البناء والغرس بالقلع (إن وقت) لعارية؛ لأنه مغرور من جهته حيث وقت له والظاهر هو الوفاء بالعهد فيرجع عليه دفعا للضرر عن نفسه (وكره) أي الرجوع (قبله) أي قبل وقت عين؛ لأن فيه خلف الوعد.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 216):
وأما صفة الحكم فهي أن الملك الثابت للمستعير ملك غير لازم؛ لأنه ملك لا يقابله عوض، فلا يكون لازما كالملك الثابت بالهبة، فكان للمعير أن يرجع في العارية سواء أطلق العارية أو وقت لها وقتا، وعلى هذا إذا استعار من آخر أرضا ليبني عليها أو ليغرس فيها، ثم بدا للمالك أن يخرجه فله ذلك سواء كانت العارية مطلقة أو موقتة، لما قلنا غير أنها إن كانت مطلقة له أن يجبر المستعير على قلع الغرس ونقض البناء؛ لأن في الترك ضررا بالمعير؛ لأنه لا نهاية له، وإذا قلع ونقض لا يضمن المعير شيئا من قيمة الغرس والبناء؛ لأنه لو وجب عليه الضمان لوجب بسبب الغرور، ولا غرور من جهته، حيث أطلق العقد ولم يوقت فيه وقتا فأخرجه قبل الوقت، بل هو الذي غرر نفسه حيث حمل المطلق على الأبد، وإن كانت موقتة فأخرجه قبل الوقت لم يكن له أن يخرجه، ولا يجبر على النقض والقلع والمستعير بالخيار إن شاء ضمن صاحب الأرض قيمة غرسه وبنائه قائما سليما وترك ذلك عليه؛ لأنه لما وقت للعارية وقتا ثم أخرجه قبل الوقت فقد غره، فصار كفيلا عنه فيما يلزمه من العهدة، إذ ضمان الغرور كفالة فكان له أن يرجع عليه بالضمان، ويملك صاحب الأرض البناء والغرس بأداء الضمان؛ لأن هذا حكم المضمونات أنها تملك بأداء الضمان، وإن شاء أخذ غرسه وبناءه ولا شيء على صاحب الأرض ثم إنما يثبت خيار القلع والنقض للمستعير إذا لم يكن القلع أو النقض مضرا بالأرض، فإن كان مضرا بها فالخيار للمالك؛ لأن الأرض أصل والبناء والغرس تابع لها، فكان المالك صاحب أصل والمستعير صاحب تبع، فكان إثبات الخيار لصاحب الأصل أولى إن شاء أمسك الغرس والبناء بالقيمة وإن شاء رضي بالقلع والنقض هذا إذا استعار أرضا للغرس أو البناء.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
17/رجب/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |