03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدین کی اجازت کے بغیر کورٹ میرج کا حکم
86462نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

سوال:ہمارے گھر والے ہماری شادی کے لیے تیار نہیں تھے اس لیےہمیں خفیہ طور پر کورٹ میرج کرنی پڑی۔ ہم نے شادی کے لیے ایک وکیل سے رابطہ کیا تھا۔ نکاح اور رجسٹریشن دونوں ایک ہی دن ہونے تھے، اس لیے نکاح کا بندوبست بھی وکیل نے ہی طے کیا تھا۔ ہماری شادی قاضی کے نکاح نامہ پر نہیں بلکہ رجسٹرڈ نکاح ادارے کے ذریعے ہوئی تھی۔ نکاح کے ادارے کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے جو مسلمان تھے۔ہماری طرح دو تین مسلمان جوڑے بھی شادی کرنے آئے تھے۔وہاں ان سب لوگوں کے سامنے ہم نے ایک دفعہ لڑکی سے پوچھا تمہیں ہمارے ساتھ نکاح قبول ہے۔لڑکی نے کہا قبول ہے، اسی طرح اس نے مجھ سے پوچھا میں نے بھی قبول کیا۔پھر ہم دونوں نے اور دو گواہوں نے جو مسلمان تھے ہمارے نکاح نامے پر دستخط کیے۔ہمارے مہر کا فیصلہ وکیل نے ہم دونوں کے مشورے کے بغیر خود سے کیا۔لیکن جب ہم دونوں کو مہر کی رقم کا علم ہوا تو اس پر ہم دونوں نے کو ئی اعتراض نہیں کیا۔وقت بچانے کے لیےقاضی نے نکاح  سے پہلے خطبہ بھی نہیں پڑھا۔ شادی کرنے کا مقصد گھر سے بھاگنا نہیں تھا بلکہ حرام سے بچنا تھا۔شادی کر کے ہم دونوں گھر سے دور جہاں رہتے تھے وہیں واپس لوٹ آ ئیں۔ اس کے بعد ہمارا میاں بیوی کی طرح رشتہ بھی رہا۔چھ ماہ بعد لڑکی کی شادی کہیں اور ہونے لگی۔ لڑکی کو گھر پر بتانا پڑا کہ شادی ہو چکی ہے۔اب لڑکی کے گھر والوں کا کہنا ہے قاضی نے خطبہ نہیں پڑھا صرف دستخط کرنے سے نکاح نہیں ہو جاتا، ایسے نکاح کو ہم نہیں مانتے۔ میں اس مسئلے  کی  وضاحت کے ساتھ شریعت کا حکم چاہتا ہوں۔ 1. کیا اس طرح سے ہمارا نکاح صحیح ہوا یا ہم دونوں نے حرام کیا؟ 2. طلاق کے بغیر لڑکی کا کہیں اور نکاح کرنا جائز ہوگا؟ 3. کیا لڑکی اپنے گھر والوں کے دباؤ میں خلع مانگ سکتی ہے؟ 4. لڑکی کن بنیادوں پر خلع مانگ سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح   کوئی عارضی اور وقتی معاملہ نہیں ، بلکہ زندگی بھرکے لیے ایک بڑی اہمیت و ذمہ داری کا حامل معاہدہ  ہے، اس میں عموما ً  والدین    کا فیصلہ اولاد کے حق میں خیر خواہی پر مبنی ہوتاہے،جبکہ والدین کی اجازت کے بغیر ازخود نکاح کےلیے کوئی قدم اٹھانا  انتہائی ناپسندیدہ ہونے کے علاوہ خاندان  کی ناراضگی،قطعِ تعلقی اور طلاق جیسی خرابیوں  کا باعث بن سکتا ہے، جن  کا برداشت کرنا بعض دفعہ انسان کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔

     لیکن اگر لڑکی  نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اگر لڑکا اس کے کفو یعنی دینداری،نسب  اور مال وغیرہ میں برابر  کا ہو تو نکاح منعقد ہوجائے گا ،ورنہ نہیں۔صورت مسئولہ میں اگر آپ کا خاندان لڑکی کے خاندان کا ہم پلہ ہے تو  آپ کا نکاح شرعاً منعقد ہوگیا ہے، اب آپ دونوں میاں بیوی ہیں۔عقد نکاح میں خطبہ  پڑھنا مسنون ہے ،خطبہ نہ پڑھنےسےنکاح کے منعقد ہونے پر کوئی  اثر نہیں پڑتا۔اب لڑکی  کے لیے اس نکاح کے ہوتے ہوئے دوسری جگہ نکاح کرنا  قطعاً جائز نہیں ۔لڑکی  اگر نکاح  پر راضی ہے تو  گھر والوں کا دباؤ ڈال کر اس کو خلع لینے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے۔میاں بیوی کے درمیان اگر ایسے مسائل پیدا ہوں جس کی وجہ سے وہ اپنا ازدواجی تعلق قائم نہ رکھ سکتے ہوں اور کوشش کےباوجود بھی  نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور اس بات کا ڈر ہو کہ اللہ کی قائم کردہ حدود برقرار نہیں رکھ سکیں گے، تو پھر ایسی صورت میں عورت شوہر کی رضامندی سے خلع لے سکتی ہے۔یاد رہے کہ شرعاً خلع  درست ہونے  کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضا مندی ضروری ہے، عدالتوں سے شوہر کی اجازت کے بغیر جو یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کی جاتی ہے شرعاً  اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔اس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم نہیں ہوگا اور لڑکی کے لیے دوسری جگہ شادی  جائز نہ ہوگی۔

حوالہ جات

قال العلامۃ المرغینانی  رحمہ اللہ تعالی :وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولى بكرا كانت، أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله  في ظاهر الرواية.( الهداية:191/1)

               وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(ويفتى في غير الكفء) بعدم جوازه(أصلا) وهو ‌المختار ‌للفتوى ؛(‌لفساد ‌الزمان) فلا تحل مطلقة ثلاثا نكحت غير كفء بلا رضا ولي بعد معرفته إياه، فليحفظ.(الدر المختار،ص :183)

وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والاصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا.( الدر المختار، ص:183)

وقال العلامۃ ابن العابدین رحمہ اللہ تعالی:فإن حاصله: أن المرأة إذا زوجت نفسها من كفء لزم على الأولياء ،وإن زوجت من غير كفء لا يلزم.(رد المحتار:84/3)

وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول.

               وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله:(وتقديم خطبة) بضم الخاء ما يذكر قبل إجراء العقد من الحمد والتشهد، وأما بكسرها فهي طلب التزوج،وأطلق الخطبة فأفاد أنها لا تتعين بألفاظ مخصوصة، وإن خطب بما ورد فهو أحسن.(رد المحتار :3/ 8)

وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:ومنها أن لا تكون منكوحة الغير، لقوله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] معطوفا على قوله عز وجل: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23] إلى قوله: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] وهن ذوات الأزواج.(بدائع الصنائع:268/2)

وقال أصحاب الفتاوی الهندیۃ:لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة.

(الفتاوى الهندیۃ:280/1)

وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع  الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول.(بدائع الصنائع:145/3)

وقال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی:(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.(المبسوط:173/6)

جنید صلاح الدین

دار الافتاءجامعۃ الرشید،کراچی

17/رجب المرجب6144ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جنید صلاح الدین ولد صلاح الدین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب