86552 | سود اور جوے کے مسائل | سود اورجوا کے متفرق احکام |
سوال
اسلامی شریعت کے مطابق کاروبار میں سود کا کیا حکم ہے؟ شریعت میں سود کی کیا تعریف ہے؟ کاروبار میں سود لینے یا دینے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر کسی کاروبار میں سود کا عنصر شامل ہو تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اسلامی شریعت میں کسی بھی قسم کا سودی کاروبار حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی حرمت قرآن و حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے۔
شریعتِ اسلام میں سود " قرض دے کر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا یا وہ زائد فائدہ جو کسی مالی معاملے میں کسی بھی عوض کے بغیر ایک فریق دوسرے فریق سے طے شدہ شرط کے تحت حاصل کرے"
ہر قسم کے کاروبار میں سودی لین دین ناجائز و حرام ہے خواہ کسی بھی نام سے ہو، سود دینے یا لینے سے شریعت کے حکم کی خلاف ورزی، روحانی پاکیزگی سے محرومیت، معاشی عدم استحکام، غربت اور معاشرتی ناانصافی کا سبب بنتا ہے،نیز سودی لین دین کی وجہ سے غریبوں پر مزید بوجھ آتا ہے اور دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
حوالہ جات
غریبوں پر مزید بوجھ آتا ہے اور دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
قال العلامۃ الرازي رحمہ اللہ:والثاني: أنه معلوم أن ربا الجاهلية إنما كان قرضا مؤجلا بزيادة مشروطة، فكانت الزيادة بدلا من الأجل، فأبطله الله تعالى وحرمه.(أحكام القرآن :1/ 566)
قال العلامۃ النسفي رحمہ اللہ:هو فضل مال بلا عوض في معاوضة مال بمال.(كنز الدقائق :431)
احسان اللہ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
/19رجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ بن سحرگل | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |