86633 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جانوروں کے مسائل |
سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں! ایک مسلمان کے گھرکے سامنے ایک مسلمان کا گھر ہے ، گھر کے مالک نے بہت سے جنگلی کتے پال رکھے ہیں ، وہ کتے آنے جانے والے راہگیروں کو پریشان کرتے ہیں ، جھپٹتے ہیں ، لپکتے ہیں حتیٰ کہ چھتوں پر چلے جاتے ہیں ، محلے کے لوگ پریشان ہیں، نگر نگم میں شکایت کرنے پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ، شکایت کرنے پر کتے پالنے والا لڑنے مرنے کو تیار ہے ۔ لہذا کچھ احباب یہ چاہتے ہیں کہ ان کتوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے تاکہ راہگیروں کو پریشانی نہ ہو اور لوگ بے خوف ہوکر آنا جانا کرسکیں ۔ سائل کا سوال ہے کہ کیا کتوں کو کھانے میں زہر ملا کر دیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی بھی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے انسان کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنے۔
لہذا مذکورہ صورت میں اگر واقعتا یہ شخص اپنے کتوں کو اس طرح پال رہا ہے کہ وہ راہگیروں کو پریشان کر رہے ہیں، تو یہ اس شخص کی غفلت اور ذمہ داری سے انحراف ہے۔ کتے اگر عوامی سطح پر لوگوں کے لیے خطرہ بنیں، تو ان کے مالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں کنٹرول کرے یا کسی محفوظ جگہ رکھے تاکہ اس کے وجہ سے کسی کو تکیف نہ ہو ۔لیکن اس کے باوجود بھی آپ حضرات کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ دوسرے کے کتوں کو زہر دے کر ماردیں ۔البتہ آپ حضرات درج ذیل طریقہ اختیار کرسکتے ہیں :
اس صورتحال میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ کتے پالنے والے کے ساتھ بات چیت کریں اور مسئلہ کو حکمت اور نرمی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ شخص بات چیت سے باز آتا ہے، تو بہت اچھا ہے،ورنہ آپ مقامی انتظامیہ، پولیس یا بلدیہ کے متعلقہ محکمے سے شکایت کر سکتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں۔ اگر ان میں شکایت کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو آپ عدالت میں قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔
حوالہ جات
في المحيط البرهاني: وفي فتاوى أهل سمرقند : رجل له كلب عقور في قرية، كل من مرَّ عليه عقره، فلأهل القرية أن يقتلوا هذا الكلب دفعاً لضرره، فإن عقر أحداً هل يجب الضمان على صاحبه؟ إن لم يتقدموا إليه قبل العض فلا ضمان عليه، وإن تقدموا إليه فعليه الضمان، بمنزلة الحائط المائل إذا سقط على إنسان، وفيه نظر. وفي الواقعات: لا ينبغي للرجل أن يتخذ كلباً (97ب2) في داره إلا كلباً يحرس ماله؛ لأن كل دار فيها كلب لا يدخلها الملائكة، وفي العيون : قرية فيها كلاب كثيرة، ولأهل القرية منها ضرر يؤمر أرباب الكلاب بقتل الكلاب دفعاً للضرر عنهم، فإن أبوا رفعوا الأمر إلى الإمام حتى يأمرهم الإمام بذلك.
وفي أضحية النوازل : رجل له كلاب لا يحتاج إليها ولجيرانه منها ضرر، فإن أمسكها في ملكه فليس لجيرانه منعه؛ لأنه يتصرف في ملكه، وإن أرسلها في السكة فلهم منعه، فإن امتنع رفعوا إلى القاضي أو إلى صاحب الحسبة حتى يمنعه عن ذلك، وكذلك من امتلك دجاجة أو جحشاً أو عجولاً في الرستاق، فهو على هذين الوجهين. (المحيط البرهاني:5/ 381)
في المحيط البرهاني : وفيه أيضاً: عن أبي يوسف في رجل قتل ذئباً، أو أسداً لرجل؛ قال: لا ضمان عليه، وإن قتل قرداً ضمن قيمته؛ لأن القرد بمنزلة الكلب؛ قال الفقيه أبو الليث: القرد يخدم في البيت ويكنس البيت، فتكون له قيمة الكلاب، بخلاف الذئب والأسد. (المحيط البرهاني:5/ 513)
في المحيط البرهاني : وأما بيع الكلب وأشباهه فقد ذكر في القدوري : بيع كل ذي ناب من السباع وذو مخلب من الطير جائز معلماً كان، أو غير معلم، وفي رواية الأصل ولا شك في جواز بيع الكلب المعلم؛ لأنه آلة الحراسة والاصطياد، فيكون محلاً للبيع.
ألا ترى أنه جاز بيع البازي المعلم والصقر المعلم، وإنما جاز؛ لأنه آلة الاصطياد، وهذا لأنه إذا كان آلة
الحراسة والاصطياد كان منتفعاً حقيقة وشرعاً، فيكون مالاً؛ لأن المال غير الأدمي خلق لمنافع الأدمي والمال محل للبيع، وأما بيع كلب غير المعلم. فقد ذكر شمس الأئمة السرخسي: أنه إذا كان الحال يقبل التعليم يجوز بيعه قال رحمه الله: هو الصحيح من المذهب، وهذا لأنه إذا كان يقبل التعليم كان منتفعاً به، فيكون محلاً للبيع،(المحيط البرهاني:6/ 347)
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ تعالی: ويجوز بيع الكلب والفهد والسباع، المعلم وغير المعلم في ذلك سواء وعن أبي يوسف أنه لا يجوز بيع الكلب العقور لأنه غير منتفع به.( (الهداية : 3/ 77)
شمس اللہ
دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی
/21 رجب،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | شمس اللہ بن محمد گلاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |