86565 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میرے والد صاحب ایک فیکٹری کی بنیاد ڈال رہے ہیں، جو ایک حلال کاروبار (ٹیکسٹائل) ہے۔ مگر اس میں ان کی جس بندے سے شراکت داری ہوئی ہے، وہ بندہ ریٹائرڈ بینکر ہے (غیر اسلامی بینک سے)۔ اس شراکت داری میں ان کے ایک کروڑ روپے اور میرے والد صاحب کی محنت شامل ہے۔ والد صاحب کی ایک لاکھ روپے تنخواہ ہے، اور تقریباً 3,25,000 روپے سے زیادہ کے منافع پر اوپری منافع میں 25 فیصد بھی والد صاحب کا حصہ ہے۔ میرے والد صاحب مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ میں بھی ان کی فیکٹری میں 25,000 روپے تنخواہ پر کام کروں۔ کیا میرے لیے یہ جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے والد صاحب کو سرمایہ فراہم کرنے والے ریٹائرڈ بینکر کی غیر اسلامی بینک میں نوکری اگر براہ راست سود کے متعلق تھی، جیسے کیشیئر وغیرہ کی نوکری، اور انہوں نے کاروبار کے لیے جو رقم فراہم کی، وہ بھی اسی سے تھی اور کل یا اکثر حرام تھی، تو ایسے کاروبار میں ملازمت اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔
اور اگر فراہم کردہ رقم کل یا اکثر حرام نہیں تھی، یعنی بینک والی رقم کے ساتھ انہوں نے کوئی دوسری حلال رقم بھی ملا کر یہ مخلوط رقم کاروبار کے لیے دی تھی، تو پھر ایسے کاروبار میں ملازمت اختیار کرنا آپ کے لیے جائز ہوگی۔
پہلی صورت میں، اگر مذکورہ ریٹائرڈ بینکر توبہ تائب ہو کر کاروبار میں لگائی گئی حرام رقم کے بقدر بغیر نیتِ ثواب صدقہ کر دے، تو پھر یہ کاروبار حلال ہو جائے گا اور آپ کے لیے اس میں نوکری کرنا تب بھی جائز ہو جائے گا۔
حوالہ جات
فقہ البیوع(2/106 ط: مکتبۃ معارف القرآن)
"إن خلط الغاصب المال المغصوب أو الحرام بمال نفسه الحلال، فالصحيح فى مذهب الحنفية أنه يجوز له الانتفاع من المخلوط بقدر حصته فيه، وكذلك يجوز للآخذ منه هبة أو شراء أو إرثا أن ينتفع به بذلك القدر" الاختيار لتعليل المختار :
والملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق.
فقہ البیوع(2/1064
السابع: أن يؤجر المرأ نفسه للبنك بأن يقبل فيه وظيفة، فإن كانت الوظيفة تتضمن مباشرة العمليات الربوية، أو العمليات المحرمة الأخرى، فقبول هذه الوظيفة حرام، وذلك مثل التعاقد بالربوا أخذاً أو عطاء، أو خصم الكميالات، أو كتابة هذه العقود، أو التوقيع عليها، أو تقاضى الفوائد الربوية، أو دفعها، أو قيدها في الحساب بقصد المحافظة عليها، أو إدارة البنك، أو إدارة فرع من فروعه، فإن الإدارة مسئولة عن جميع نشاطات البنك التي غالبها حرام
ومن كان موظفاً في البنك بهذا الشكل، فإن راتبه الذى يأخد من البنك كله من الأكساب المحرمة، فإن لم يكن له مال غيره، دخل في القسم الأول، فلا يجوز أخذ شيئ منه هبة أو بيعاً أو شراء أو إرثاً ويجب عليه أن يتوب إلى الله تعالى ويتصدق بما كسب من البنك ) وإن وفقه الله تعالى للتوبة، ولم يكن له مال غيره، يسعه بفتوى من شفت موثوق به أن يصرفه في حاجة نفسه بطريق الاقتراض، ويتصدق بمثله متى وجد سعة حسب التفصيل الذي ذكرناه في القسم الرابع تحت عنوان "صرف الربح في حاجة نفسه."
وأما الوظائف التي تشتمل الخدمات المباحة والمحظورة، فيجرى فيه ما قدمنا في وظائف الفنادق والمطاعم.
أما إن كان مثل هذا الموظف له أكساب حلال من غير طريق البنك، أو له مال ورثه بطريق حلال، فإنه داخل في الصورة الثالثة من القسم الثالث، لأن ماله مخلوط من الحلال والحرام. فتجرى عليه أحكامه، فيحل له الانتفاع من أمواله بقدر ما فيها من الحلال، وكذلك يجوز للآخرين أن يتعاملوا معه بذلك القدرأما إذا كانت الوظيفة ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات الربوية، مثل وظيفة الحارس أو سائق السيارة، أو العامل على الهاتف أو الموظف المسئول عن صيانة البناء أو المعدات، أو الكهرباء، أو الموظف الذى يتمخض عمله في الخدمات المصرفية الصباحة، مثل تحويل المبالغ، والصرف العاجل للعملات، وإصدار الشبك المصرفي أو حفظ مستندات الشحن، أو تحويلها من بلد إلى بلد، فلا يحرم قبولها إن لم يكن بنية الإعانة على العمليات المحرمة، وإن كان الاجتناب عنها أولى، ولا يحكم في راتبه بالخرمة، لما ذكرنا من التفصيل فى الإعانة والتسبب، وفي كون مال البنك مختلطاً بالحلال والحرام، ويجوز التعامل مع مثل هؤلاء الموظفين هبة أو بيعاً .
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
۲۴/۷/۱۴۴٦ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |