86756 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
25 اکتوبر 2024 کو میرے شوہر کا انتقال ہوا،ان کی وصیت ان کے انتقال کے بعد اب سامان سے ملی ہے،(وصیت ساتھ منسلک کی گئی ہے)،انتقال کے وقت ان کی منقولہ جائیداد میں نقد رقم اور ایک گاڑی پائی گئی ہے،ہمارا رہائشی مکان اور ایک پلاٹ شروع سے ہی میرے (بیوہ ) کے نام اور ملکیت ہے،مجھے میرے سابق مورِث(والد صاحب ) کی میراث سے جو حصہ ملا تھا ،اس کا بڑا حصہ گھر کی دیکھ بھال و دیگر اخراجات میں خرچ ہوا ہے۔
وصیت نامہ
"میرے بعد میرے منقولہ و غیر منقولہ اثاثوں سے حاصل ہونے والی رقم کو ضروری اخراجات اور سمیہ(بیوی) کا قرض ادا کرنے کے بعد شریعت کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کردیا جائے"۔
سوال یہ ہے کہ مذکورہ وصیت کی رو سے:
- رقم اور گاڑی کے علاوہ کیا رہائشی مکان اور پلاٹ بھی شوہر کے ورثاء میں تقسیم کرنا چاہیے؟
- میری ذاتی رقم جو کہ گھر کی دیکھ بھال میں خرچ ہوئی ،اگر اس کی ادائیگی بنتی ہے تو کس طرح ادا کرنا چاہیے؟جبکہ اس رقم کی ادائیگی پر میرا اصرار نہیں ہے۔
نوٹ:2003 میں ساڑھے تین لاکھ بطور قرض دیے تھے،اور 2018 سے 2024 تک 18 لاکھ گھریلو اخراجات میں خرچ کیے ،جو میرے شوہر نے کہا تھا کہ آپ تقسیم کے وقت لے لینا،لیکن میں نے قرض کی نیت سے نہیں دیے تھے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
- آپ کے شوہر نے جو مکان یا پلاٹ یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز اپنی زندگی میں حالت صحت میں،آپ کو مالک بنا کر قبضہ کرواکر دے دی تھی،ایسی تمام اشیاء آپ کی ملکیت میں شمار ہوں گی اور آپ کے شوہر کی وراثت میں تقسیم نہیں ہوں گی،البتہ ان کے علاوہ اشیاء جو آپ کو مالک بناکر اور باقاعدہ قبضہ کرواکر نہیں دی تھیں،ایسی تمام اشیاء وراثت میں تقسیم ہوں گی۔
- آپ کے شوہر کے ترکہ میں سے آپ کووہ رقم لینے کا حق حاصل ہے،جو آپ نے بطور قرض دی تھی،البتہ تبرعاً واحساناً آپ نہ لینا چاہیں تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔اس کے علاوہ آپ کے شوہر کے ترکہ میں جو حصہ بطور وارث کے آپ کا بنتا ہے ،وہ بھی لینے کاحق حاصل ہے۔
حوالہ جات
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 84)
(سئل) فيما إذا دفعت هند لزيد مبلغا معلوما من الدراهم على سبيل القرض فطالبته بالمبلغ المزبور فقال إنك دفعته لي هبة وقالت بل قرضا فهل يكون القول قولها بيمينها في ذلك وعليه رد مثل القرض المزبور؟
(الجواب) : نعم دفع لآخر عينا ثم اختلفا فقال الدافع قرض وقال الآخر هدية فالقول قول الدافع كذا في القول لمن عن البزازية ومثله في الخانية دفع إليه دراهم فقال أنفقها ففعل فهو قرض كما لو قال اصرفها إلى حوائجك ولو دفع إليه ثوبا وقال اكتس به ففعل يكون هبة؛ لأن قرض الثوب باطل، لسان الحكام من الهبة.
قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار (8/ 116)
القَوْل للدافع لانه أعلم بِجِهَة الدّفع.
دفع إِلى ابنه مالا فأرادَ أخذه صدق فِي أنه دفعه قرضا.
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 19)
دفع إلى ابنه مالا فأراد أخذه صدق أنه دفعه قرضا لأنه مملك دفع إليه دراهم، فقال له أنفقها ففعل فهو قرض كما لو قال اصرفها إلى حوائجك، ولو دفع إليه ثوبا وقال اكتس به ففعل يكون هبة؛ لأن قرض الثوب باطل، لسان الحكام في هبة المريض وغيره، دفع إلى غيره دراهم فأنفقها وقال صاحب الدراهم أقرضتك وقال القابض لا بل وهبتني كان القول قول صاحب الدراهم من نكاح الخانية،رجل ادعى على ميت ألفا فبرهن وارثه أن الأب أعطى ألفا يقبل والوارث يصدق في أن الأب أعطاه بجهة الدين لقيامه مقام مورثه فيصدق في جهة التمليك فصولين مما يكون القول فيه للمملك.
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۶.رجب۱۴۴۶ہجری
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |