86723 | نکاح کا بیان | جہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان |
سوال
ہمارے ہاں شادی میں عورتوں کا مہر دو طرح سے مقرر کیا جاتا ہے ۔
- مہر معجل 10 سے 15 لاکھ مقرر کرکے، لڑکی والوں کے ہاتھ میں دے کر، ضرورت کا تمام سامان خریدنےکا پابند کیا جاتا ہے ۔
- مہر 3 لاکھ روپے مقرر کرکے،لڑکی والوں کو دیا جاتا ہے، لیکن لڑکے والوں کو سونا سمیت تمام ضرورت کا سامان خریدنےکا پابند کیا جاتا ہے ۔
جھگڑا صورت ثانی میں سونے پر اس وقت پیدا ہوجاتا ہے، جب میاں بیوی میں جدائی ہوتی ہے خاوند کی وفات کی صورت میں یا طلاق کی وجہ سے۔یہاں عرف میں یہ عورت کا حق سمجھا جاتا ہے، پوچھنا یہ تھا کہ صورت ثانی میں سونے پر کس کا حق ہے؟ دوسری صورت میں مہر بالفرض 3لاکھ مقرر کرتے ہیں اور بوقت نکاح یہی مہر بولا جاتا ہے لیکن رواج کے مطابق دولہے والوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ سونا سمیت ضرورت کا تمام سامان آپ نے لینا ہے،اب جدائی کے وقت یہ سونا کس کا حق ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مہر زوجہ کا حق ہے،لہٰذا مہر کی جو مقدار نکاح کے وقت طے کی گئی ہو،وہ ادا کیے جانے کے بعد زوجہ کی ملکیت شمار ہوگااوراگرادانہ کیاتوشوہرکےذمےمیں اس کی ادائیگی لازم رہے گی،الا یہ کہ زوجہ معاف کردے،البتہ مہر کے علاوہ جو کچھ زوجہ کو دیا جاتا ہے،اس میں تفصیل ہے:
- اگر صراحت ہوکہ یہ چیز مثلاً سونا یا زیورات وغیرہ فقط عاریتاً یعنی استعمال کے لیے دیے جارہے ہیں تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ زوجہ کی ملکیت شمار نہیں ہوگااور شوہر یا سسرال میں سے جس نے بھی دیا ہے،اس کے مطالبے پر واپس کرنا ضروری ہوگا۔
- اگر صراحت ہوکہ یہ ہبہ (Gift)کے طور پر زوجہ کو دیا جارہا ہےتو ایسی صورت میں زوجہ جب قبضہ کرلے تو یہ زوجہ کی ملکیت شمار ہوگااور طلاق وغیرہ کسی بھی صورت میں زوجہ کی رضامندی کے بغیر اس سے لینا جائز نہیں ہوگا۔
- اگر کسی قسم کی کوئی صراحت نہ ہوکہ یہ عاریتاً یعنی فقط استعمال کے لیے دیا جارہا ہے یا ہبہ (Gift) کے طور پر دیا جارہا ہےتو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار ہوگا،اگر عرف عاریت کا ہے تو زوجہ کی ملکیت شمار نہیں ہوگا لہٰذا مطالبے پر واپس کرنا ضروری ہوگا اور اگر عرف ہبہ(Gift) کا ہے تو زوجہ کی ملکیت شمار ہوگااور زوجہ کی رضامندی کے بغیر کسی بھی صورت میں اس سے واپس لینا جائز نہیں ہوگا۔
- اگر صراحت بھی نہ ہو اور کسی قسم کا کوئی عرف بھی نہ ہوتو ایسی صورت میں ایسی تمام اشیاء جو زوجہ کے قبضے میں دی جاچکی ہیں،ان کی مالک زوجہ شمار ہوگی ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:3/ 151،152(
(ولو بعث إلى امرأته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير) جهة (المهر) كقوله لشمع أو حناء ثم قال إنه من المهر لم يقبل قنية؛ لوقوعه هدية فلا ينقلب مهرا (فقالت هو) أي المبعوث (هدية وقال هو من المهر) أو من الكسوة أو عارية (فالقول له) بيمينه والبينة لها، فإن حلف والمبعوث قائم فلها أن ترده و ترجع بباقي المهر ذكره ابن الكمال. ولو عوضته ثم ادعاه عارية فلها أن تسترد العوض من جنسه زيلعي (في غير المهيإ للأكل)...(قوله ولو بعث إلى امرأته شيئا) أي من النقدين أو العروض أو مما يؤكل قبل الزفاف أو بعد ما بنى بها نهر...(قوله والبينة لها) أي إذا أقام كل منهما بينة تقدم بينتها ط.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 380)
زوج بنته وجهزها ثم ادعى أن ما دفعه لها عارية، وقالت تمليكا أو قال الزوج ذلك بعد موتها ليرث منه، وقال الأب عارية، قيل: القول للزوج ولها؛ لأن الظاهر شاهد به إذ العادة دفع ذلك إليها هبة واختاره السغدي، واختار الإمام السرخسي كون القول للأب؛ لأن ذلك يستفاد من جهته ، والمختار للفتوى القول الأول إن كان العرف ظاهرا بذلك كما في ديارهم، كما ذكره في الواقعات وفتاوى الخاصي وغيرهما، وإن كان العرف مشتركا فالقول للأب، وقيل إن كان الرجل ممن مثله يجهز البنات تمليكا فالقول للزوج وإلا فله.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 158)
كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 153)
قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 157)
والمعتمد البناء على العرف كما علمت.
الفتاوى الهندية (1/ 327)
وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية.
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۶.رجب۱۴۴۶ہجری
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |